Maktaba Wahhabi

397 - 545
تحقیق آگے بڑھادینا نہ صرف علماء کی شان کے خلاف ہے بلکہ شرعی روح کے بھی منافی ہے۔ چنانچہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((كَفَى بالمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ))[1] ”کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے(اُسے بلاتحقیق) آگے بیان کردے“ درحقیقت بیع معلق کا جو شبہ پیدا ہوا ہے وہ غالباً کلائنٹس کے اُس ابتدائی ایگریمنٹ کے سبب ہوا ہے جس کے تحت بینک اور کلائنٹ آپس میں کچھ قواعد وضوابط طے کرلیتے ہیں کہ بینک مرابحہ کن شرائط کے ساتھ دےگا اور گاہک اپنی مطلوبہ چیز بطور مرابحہ کس طرح اور کن اصولوں کے ساتھ حاصل کرسکے گا یہ ایک مفاہمتی طریقہ کار ہوتا ہے جس کے تحت کوئی بھی فریق دوسرے کو وہ چیز لینے یاد ینے پر باؤنڈ نہیں کرتا مزید توضیح کے لیے بندہ جسٹس تقی عثمانی صاحب کی درج ذیل عبارت کواپنے مؤقف کے شاہد کے طور پرپیش کررہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: دراصل ہوتا یہ ہے کہ بینک کے گاہکوں کو اپنی مطلوبہ اشیاء ایک مرتبہ نہیں،بلکہ باربار خریدنی پڑتی ہیں،وہ بینک کے پاس آکر اس خریداری کے اصول طے کرتے ہیں کہ ہم وقتاً فوقتاً آپ سے فلاں فلاں اشیاء مرابحہ کی بنیاد پر خریدیں گے۔یہ کوئی عقد نہیں ہوتا،بلکہ آئندہ ہونےوالےعقود کا طریق کار اور اُس کی شرائط طے کرنے کے لیے ایک مفاہمت ہوتی ہے کہ آئندہ جو کوئی بیع ہوگی،وہ ان اصولوں اور ان شرائط
Flag Counter