تک کہ حنابلہ جو بیع میں بعض شرائط کو جائز قراردیتے ہیں ان کا بھی مذہب یہی ہے علامہ ابن قدامہ فرماتے ہیں:
"الثَّانِي:أَيْ النَّوْعُ الثَّانِي مِنْ الشَّرطِ)فَاسِدُ، وَهُوَ ثَلَاثَةُ أَنْوَاعٍ أَحَدُهَا : عَلَى صَاحِبِهِ عَقْدًا آخَرَ كَسَلَفٍ أَوْ قَرْضٍ أَوْ بَيْعٍ أَوْ إجَارَةٍ أَوْ شَرِكَةٍ ، أَوْ صَرْفِ الثَّمَنِ أَوْ غَيْرِهِ فَهَذَا يُبْطِلُ الْبَيْعَ وَيَحْتَمِلُ الشَّرْطُ وَحْدَه، اَلْمَشْهُوْرُ فِي الْمَذْهَبِ أَنَّ هٰذَا الشَّرْطُ فَاسِدٌ يُبْطِلُ بِهٖ الْبَيْعَ لِأنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يَحِلُّ بَيْعٍ وَ سَلَفٌ وَلَا شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ قَالَ ا لتِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثُ صَحَيْحُ،وَ لِأنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهٰى عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ ، ،هٰذَا مِنْهُ،قَالَ أَحمد: وَكَذَالَكَ كُلُّ مَافِيْ معني ذٰلِكَ مِثْلَ أَنَّ يَقُوْلَ عَليٰ أَنْ تَزَوَّجَنِي بِاِبْنتَكَ أَوْ عَليٰ أَنْ أُزَوِّجَكَ ابْنَتِيْ،فَهٰذَاكُلُّه،لَا يُصحْ قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ الصَّفْقَتَانِ فِي صَفْقَةٍ رِبًا وَهٰذَا قُوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ والشَّافِعِيِّ وَجُمْهُورِالْعُلَمَاءِ ،وَجَوَّزَهُ مَالِكُ رحمة اللّٰه عليه وَجَعَلَ الْعِوَضَ الْمَذْكُوْرِ فِي الشَّرطِ فَاسِدًا."[1]
”شرط فاسد کی دوسری قسم کی(مزید) تین قسمیں ہیں ایک یہ کہ متعاقدین میں سے ایک اپنے ساتھی پر کسی دوسرے عقد کی شرط لگائے، جیسے قرض اُدھار، بیع کرایہ پر دینے وغیرہ کی شرط لگائے ،تو یہ بیع کو باطل کر دیتی ہے
|