حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم سلم کرتے وقت فروخت کنندہ سے یہ پوچھتے ہی نہیں تھے کہ تمھارے پاس گیہوں اور جَو وغیرہ کی فصل ہے بھی یا نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو حلال و حرام میں انتہائی درجہ تک احتیاط برتنے والے تھے، اس معاملہ میں اس قدر تساہل کا مظاہرہ کیوں کیا؟ کہ اگر سپلائرکے لیے رخصت نہ ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یقیناً اس بات کی تحقیق کئے بغیر ہر گز سودا نہ کرتے پہلے دریافت کرتے کہ تمھارے پاس اس کی اصل موجود ہے یا نہیں۔
2۔ مسند احمد میں بھی اسی مضمون کی روایت موجود ہے چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں:
" كُنَّا نُسْلِفُ فيِ عَهْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فِي الْحِنْطَةِ وَالشَّعِيرِ وَالزَّبِيبِ أوِ التَّمْرِ شَكَّ فيِ التَّمْرِ والزَّبِيبِ۔وَمَا هُوَ عِنْدَهُمْ أوْنَرَاهُ عِنْدَهُمْ."[1]
”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں گندم ، جو اور منقیٰ یا کہا کھجوروں میں(یعنی راوی کو یہ شک ہے کہ کھجور کالفظ بولا یا منقے کا) بیع سلم کرتے تھے وہ چیز ان کے پاس نہیں ہوتی تھی یا کہا ہم وہ ان کے پاس نہیں دیکھتے تھے۔“
3۔ایک روایت سنن نسائی میں موجود ہے جسے مذکورہ بالا رعائت کے خلاف قراردیا جاتا ہے چنانچہ :
عن حَكيمِ بنِ حزامٍ قَالَ سألتُ النبيَّ صلى اللّٰه عليه وسلَّم فقلتُ: يا رسولَ اللّٰهِ، يأتيني الرجلُ فيسألني البيعَ لَيْسَ عِنْدِي أبيعُه منه ثم
|