Maktaba Wahhabi

493 - 545
اللہ جل جلالہ یہ چاہتا ہے کہ بندے عدل واحسان کی روش اختیار کریں اور ظلم و زیادتی سےکلیتاً بچیں اور ہمیشہ دور رہیں کیونکہ اسی سے ان دونوں جہانوں کی کامیابی و کامرانی حاصل ہو سکتی ہے، جبکہ اسلامی بینکوں نے اس جبری صدقے کی یہ حکمت بیان کی ہے کہ”اس طرح بینک اپنے آپ کو پہنچنے والے نقصان کا تدارک تو نہیں کر سکتا تاہم آئندہ ادائیگیوں میں مزید تاخیر سے بچنا ممکن ہو جاتا ہے۔“[1] © غور طلب بات یہ ہے کہ کلائنٹ صدقے کے خوف سے اپنی قسط اسلامی بینک کے بقول وقت پر ادا کرے گا گویا اقساط کی وقت پر ادائیگی صدقے کے خوف پرموقوف ہے بتائیے جس صدقے سے ڈرا اور بچا جائے اُس صدقے کی ادائیگی پر اللہ جل جلالہ سے کسی اجروثواب کی کیا اُمید رکھی جاسکتی ہے؟ © تاخیر کی صورت میں جرمانے کو صدقے کے نام سے وصول کیا جاتا ہے اگرچہ بینک یہ جوازپیدا کرتا ہے کہ صدقہ الگ اکاؤنٹ میں جمع ہوتا ہے جس کا بینک مالک نہیں ہوتا اور وہ صرف رفاہِ عامہ اور سماجی خدمات کے طور پر استعمال ہوتا ہے یا اسے رفاہِ عامہ کے اداروں کے حوالے کردیا جاتا ہے تاہم یہ صدقہ نہیں،جرمانہ ہی ہے چونکہ صدقہ ایک نفلی عبادت ہے جسے جبراً وصول نہیں کیا جاسکتا ،جیسا کہ آپ مندرجہ بالا بحث سے جان چکے ہیں کہ صدقے کا تعلق احسان سے ہے اور احسان بلا عوض ہوتا ہے جبکہ زیربحث صدقے کا عوض مدّتِ تاخیر ہے،لہذا اس کی وصولی اسلامی بینکوں کے لیے ہرگز جائز نہیں ہے۔ البتہ اس کی جگہ دو صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں 1۔ اگر کلائنٹ کسی آفت سے دو چار ہو جائے تو اُسے کچھ ماہ کی مہلت دے دی جائے۔ 2۔اگر کلائنٹ بغیر کسی عذر کے تاخیر کر رہا ہے تو اُسکے خلاف عدالتی کاروائی ہونی چاہیے،بہر حال اس جبر صدقے کی جگہ مزید متبادل کے تلاش کی ضرورت ہے۔
Flag Counter