Maktaba Wahhabi

52 - 545
مرکب ہو یا مفرد، ایک گناہویادس گنا یااس سے کم و بیش وہ سب کا سب اس اعلان میں داخل ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل زر لینے کی تو اجازت دی ہے اس سے زائد طے شدہ مال کو سود قراردیکر ختم کردیا اور اس لیے لین دین کی ہمیشہ کے لیے ممانعت کردی۔ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر”درمنثور“میں اس آیت (فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ)کے ذیل میں ذکر کیا ہے کہ یہ آیت عباس بن عبدالمطلب اور بنی مغیرہ کے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی تھی یہ دونوں حضرات زمانہ جاہلیت میں باہم شراکت کے ساتھ اپنا روپیہ بنو ثقیف کے لوگوں کو سود پر ادھار دیا کرتے تھے۔[1] 2۔مشہور صحابی حضرت فضالہ بن عبید سے ربا کی تعریف ان الفاظ میں منقول ہے: "كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ وَجْهٌ مِنْ وُجُوهِ الرِّبَا."[2] ”ہر وہ قرض جو نفع لے کر واپس آئے وہ سود کی شکلوں میں سے ایک شکل ہے۔“ 3۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے منقول ہے: "مَنْ أَسْلَفَ سَلَفًا فَلَا يَشْتَرِطْ إِلَّا قَضَائَهُ."[3] ”جس نے کسی كوکو ئی قرض ديا وه اصل رقم کی ادائیگی کے علاوہ کوئی شرط نہ رکھے۔“ 4۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (مَنْ أَسْلَفَ سَلَفًا فَلَا يَشْتَرِطْ أَفْضَلَ مِنْهُ وَإِنْ كَانَتْ قَبْضَةً مِنْ عَلَفٍ فَهُوَ رِباً)[4] ”جو شخص کسی کو کوئی قرض دے تو اس سے زیادہ ادائیگی کی شرط نہ رکھے، اگر وہ ایک مٹھی چارہ بھی ہوگا تو وہ بھی سود ہو گا۔“
Flag Counter