Maktaba Wahhabi

537 - 545
کے ساتھ مشروط نہیں ہو جس کے نتیجہ میں پریمیم پالیسی ہولڈر کی ملکیت سے نکل جاتا ہے۔ لہٰذا نہ اُس پر زکوٰہ واجب ہوتی ہے اور نہ اس رقم پر میراث کے احکام جاری ہوتے ہیں، 5۔لیکن یہ توجیہ اُس صورت میں درست قراردی جا سکتی ہے جب تبرع کے نتیجہ میں وجود میں آنے والے پول کو شخص قانونی (Legal Person)قراردیا جائے تاکہ پہلے وہ اس کا مالک بن جائے اور پھر وہ اپنے قواعد کے مطابق پالیسی ہولڈرز کے رسک کورکرے، 6۔جبکہ تکافل کے موجودہ نظام میں تبرع کی بنیاد پر قائم ہونے والے پول کا شخص قانونی ہونامحل نظر ہے، کیونکہ اس کا کمپنی سے الگ کوئی وجودہ نہیں ہے۔[1] 7۔اس کے برعکس وقف چونکہ خود شخص قانونی ہے اور دئیے گئے عطیات براہ راست وقف کی ملکیت میں چلے جاتے ہیں اور وقف پھر اپنے طے کردہ ضوابط کی روشنی میں (Claims)کی ادائیگی کرتا ہے اس لیے وقف کا نظام زیادہ قابل اطمینان ہے، خصوصاًجبکہ وقف کے اندر شرعاً اس بات کی بھی گنجائش ہے کہ وقف کرنے والا شخص خود اپنے لیے بھی اس وقف سے نفع حاصل کرنے کی شرط لگا سکتا ہے جیسے کوئی شخص قبرستان کے لیے جگہ وقف کرے تو اس میں اپنی قبربنانے کی شرط بھی لگا سکتا ہے یا کوئی شخص کنواں وقف کرے تو خود بھی اس سے پانی حاصل کرنے کی شرط لگا سکتا ہے۔۔۔۔ 8۔بلکہ اس شرط کا خیال رکھنا اتنا ضروری ہے جتنا کسی ایسے شرعی حکم کا، جس کا ثبوت قرآن کریم اور احادیث مبارکہ سے ہو۔ چنانچہ فقہ (حنفی) کا مشہور اُصول ہے کہ: (شَرْطُ الْوَاقِفِ كَنَصِّ الشَّارِعِ) ”واقف کا کوئی شرط لگانا بمنزلہ صاحب شریعت کے فرمان کے ہے۔“[2]
Flag Counter