Maktaba Wahhabi

542 - 545
تو وہاں”نقصان کے ازالے“کے لیے وقف فنڈ قائم کرنے کی بدرجہ اولیٰ اجازت ہوگی۔[1] سوال نمبر2:جو مثالیں اُوپر ذکر کی گئیں ہیں، اس کے اندر وقف سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے یہ شرط نہیں کہ وقف سے فائدہ اُٹھانے والے شخص نے بھی کچھ نہ کچھ عطیہ ضرور دیا ہو مثلاً جب کوئی کنواں وقف ہوگیا تو اب اُس سے ہرپیاسا شخص پانی پی سکتا ہے چاہے اُس نے کنویں کو خرید کر وقف کرنے میں کوئی حصہ ملایا ہو یا نہ ملایا ہو۔ جواب:وقف کے اندر اس بات کی شرعاً گنجائش ہے کہ وہ کسی مخصوص طبقے یا افراد کے لیےہو مثلاً کوئی شخص یہ شرط لگائے کہ میں فلاں باغ اس شرط پر وقف کرتا ہوں کہ اس کا پھل صرف فلاں رشتہ داروں کو یا میری اولاد کو دیا جائے یا میری زندگی میں مجھے ملتا رہے اور میرے بعد فلاں بستی کے فقراء اس سے فائدہ اٹھائیں۔ سوال نمبر3:وقف کرنے والا وقف کے مصالح کے پیش نظر وقف کے دائرہ کومخصوص افراد تک محدود رکھنا چاہے تو کیا وہ ایسا کر سکتا ہے؟ جواب:تکافل کمپنی میں وقف کی بنیاد پر قائم پول کو اگر بالکل عام کردیا جائے اور ہرشخص کو اس سےاپنا رسک کور کرنے کی اجازت دی جائے تو ظاہر ہے کہ اس پول میں ہرگز اس کی گنجائش (Capacity)نہیں لہٰذا ضروری ہوگا کہ یہ وقف کسی مخصوص طبقے کے لیے ہو پس اگر واقفین یہ شرط لگادیں کہ اس وقف سے صرف وہ لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جو اس وقف کو عطیہ(Donation) دیں تو یہ قید (Restriction) لگانا ناجائز نہیں ہوگا۔ سوال نمبر4:وقف کا یہ طریقہ بھی ہے کہ جو زیادہ عطیہ دے(یعنی زیادہ پریمیم دے)وہ اُس شخص سے زیادہ نقصان کی تلافی کا حقدار ٹھہرتا ہے جو اُس کے مقابلے میں کم عطیہ دے تو وہ کم نقصان کی تلافی کا حقدار ٹھہرتا ہے گویا عطیہ (پریمیم) کی کمی اور زیادتی کی بنیاد پر نقصان کی تلافی میں کمی زیادتی کرنا اسے عقد معاوضہ کے قریب کردیتا ہے۔
Flag Counter