Maktaba Wahhabi

55 - 545
ہو جاتا ہے تو کسی دوسرے نظام کا تجربہ کرتی ہیں، آئین یا اس کی کوئی شق مسائل حل کرنے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں تو نیا آئین یا کوئی نئی ترمیم آئین میں شامل کر لی جاتی ہے، ہر مسئلے کا کوئی نا کوئی حل بالآخر نکل ہی آتا ہے،اگر کسی مسئلہ کا کوئی حل نہ مل سکے تو صبر کر لیا جاتا ہے۔کیا اقتصادی اور معاشی نظام کے سلسلے میں ہم یہ راستہ اختیار کر کے دیکھ چکے ہیں۔؟موجودہ یہودی اور جاہلیت کا تخلیق کردہ سودی نظام ہی ہمارے مالی مسائل کا واحد حل ہے؟یا اس نے ہمیں دیوالیہ کر کے غلامی کی زنجیروں میں جکڑدیا ہے، اور ہم مِن حیث القوم زندگی کی رمق قائم رکھنے میں بھی ناکام ہوتے نظر آرہے ہیں۔اس کے باوجود ہم اس نظام سے جان چھڑانے کے لیے آمادہ نظر نہیں آتے،اوراسلام کے بہترین اقتصادی نظام کا تجربہ کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں اور اگر کوئی اس کے لیے جد وجہد کرتا ہے تو اسے راستے سے ہی ہٹا دیتے ہیں اور اس جاری سودی نظام کے لیے اسلام میں رخصتیں تلاش کر کے اسے قابل قبول بنانے کی سعی نامشکور میں مشغول ہیں۔ ذاتی طور پر اہل علم نے خاصی محنت کی ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان بھی اس بارے میں بہت سی سفارشات مرتب کر کے دے چکی ہے مگر کوئی حل قابل قبول نہیں ٹھہرا۔ ہمارے ایک سابق وزیر مذہبی اُمور بھی اسلام کے معاشی نظام کے نفاذ کے لیے اور سودی نظام سے وطن عزیز کو پاک کرنے کے لیے خاصے جذباتی تھے اور پورے اخلاص کے ساتھ مصروف عمل بھی رہے بالآخر مایوس ہو کر منہ لٹکائے وزارت کو خیرآباد کہہ کرواپس اپنے ٹھکانے پر آگئے تھے۔اب وہ دنیا میں نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ غریق ِرحمت فرمائے۔ بینکوں کو صرف انہی علماء کی آراء اور اقتصادی مہارت قبول ہے جو ان کے جاری نظام کو الفاظ و اصطلاحات کی ملمع سازی کے ساتھ اسلام میں ان کے لیے حل تلاش کر سکتے ہوں۔یہاں تک اس دعویٰ اور پروپیگنڈاکا تعلق ہے کہ اسلام میں بینکاری نظام کا
Flag Counter