Maktaba Wahhabi

134 - 589
سے ملاقات کرتا ہے تو اسے (دخولِ) جنت سے نہیں روکا جاتا] مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے گناہوں کی پاداش میں عذاب و سزا پا کر جنت میں داخل ہو گا۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ سلف صالحین، اہلِ حدیث، فقہا و متکلمینِ اشاعرہ اہلِ سنت کا یہ مذہب ہے کہ گناہ گار لوگ اللہ تعالیٰ کی مشیت میں ہیں ۔ جو شخص حالتِ ایمان پر فوت ہوا ہے اور اس نے خلوصِ دل سے شہادتین کی گواہی دی تو وہ جنت میں جائے گا۔ بشرطیکہ وہ یا تو گناہوں سے تائب ہو چکا ہو یا گناہوں سے بالکل ہی محفوظ ہو۔ اس کا یوں جنت میں جانا اور جہنم سے بچا لیا جانا اللہ کی رحمت سے ہی ممکن ہو گا۔ ’’اگر وہ منجملہ ان لوگوں کے ہے جن کے نیک و بد اعمال ملے جلے ہیں اور اس نے اپنے ذمے واجب کو ضائع کیا اور حرام کا مرتکب ہوا تو وہ اللہ کی مشیت میں ہے۔ اس کے بارے میں نہ تو قطعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس پر جہنم حرام ہے اور نہ یہ بات ہی یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وہ دخولِ اول کے ساتھ جنت کا مستحق ہے۔ ہاں جو بات قطعیت کے ساتھ ان کے حق میں کہی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ انجام کار وہ جنت میں داخل ہو گا اور اس انجام سے پہلے وہ خطر مشیت میں پڑا ہوا ہے۔ چاہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہ پر عذاب کرے اور چاہے تو اپنے فضل سے اسے معاف کر دے۔ ’’الغرض موحد کا داخلِ جنت ہونا ایک لازمی اور ضروری امر ہے، فوراً اور جلدی معافی ہو جائے اور وہ جنت میں داخل ہو یا دیر اور تا خیر کے ساتھ عذاب لینے کے بعد جنت میں جائے۔ اس پر آگ حرام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر آگ میں ہمیشہ رہنا حرام ہے یا تحریم نار والی بات اس شخص کے ساتھ خاص ہو جس کا آخری کلام اور اس کا خاتمہ کلمہ شہادت ہو۔ اگرچہ وہ اس سے پہلے گناہ اور نیکی کے ملے جلے عمل کرتا رہا ہو۔ مگر اب اس کا کلمہ شہادت پڑھنا اس پر رحمتِ الٰہی اور جہنم سے نجات کا ایک سبب بن جائے گا۔ بر خلاف ان مدحدین مخلطین کے جن کا آخری کلام کلمہ شہادت نہ بنا ہو۔ سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ حدیث کا یہی مطلب ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ جس دروازے سے چاہے
Flag Counter