Maktaba Wahhabi

51 - 589
فرماں روائی کے لیے کوشش کی اور اس کوشش میں انھیں کامیابی حاصل ہوئی۔ انھوں نے ریاست پر اپنا دعواے فرماں روائی پُرزور اور مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کیا، جسے انگریزی حکومت صحیح ماننے پر مجبور ہوگئی اور وہ نواب سکندر بیگم کہلائیں ۔ اصلاحات اور سلسلۂ تعلیم: نواب سکندر بیگم بڑی منتظم اور سمجھ دار حکمران تھیں ۔ انھوں نے ریاست میں بہت سی اصلاحات جاری کیں ۔ ڈاک رسانی کا بہترین نظام قائم کیا، مختلف حکومتی دفاتر جدید طریقے سے قائم کیے، ریاست کے بلاد و قصبات کے نقشے بنائے، دفتری احکام میں مختصر نویسی کا حکم دیا، طویل اور مسجع و مقفع عبارتوں سے بچنے کی تاکید کی۔ رعایا کی سہولت کے لیے بعض نئے محکمے قائم کیے، ایک محکمہ احتساب قائم کیا۔ وہ علم و علما کی بہت قدر دان تھیں ۔ بہت سے علما و شعرا ان کی دعوت پر بھوپال آئے اور انھوں نے اس شہر اور ریاست میں مستقل طور سے سکونت اختیار کی۔ نواب سکندر بیگم کو مطالعہ کتب کا بہت شوق تھا اور تصنیف و تالیف سے انھیں بڑی دلچسپی تھی۔ ریاست میں تعلیم عام کرنے کے لیے انھوں نے ہر گاؤں اور قصبے میں مدارس جاری کیے۔ ان مدارس میں عربی، فارسی، اردو، ہندی اور انگریزی تمام زبانوں کی تعلیم دی جاتی تھی۔ انھوں نے ۱۸۵۱ء میں بھوپال میں مطبع سکندری کے نام سے ایک پریس قائم کیا۔ ان کے داماد اور ان کی بیٹی نواب شاہ جہاں بیگم کے شوہر باقی محمد خاں نے (جنھیں نواب امراؤ دولہ کہا جاتا تھا) اپنے مصارف سے ایک بہت بڑا مدرسہ جاری کیا اور کتب خانہ قائم کیا، جو بعد میں ضائع ہوگیا۔ نواب سکندر بیگم مذہبی اعتبار سے بہت مضبوط عقائد کی مالک تھیں اور احکامِ اسلام پر پابندی سے عمل کرتی تھیں ۔ اسلام کے اصولی اور فروعی مسائل پر انھیں عبور حاصل تھا۔ مسلمانوں کے عام معاملات میں بے حد دلچسپی رکھتی تھیں ۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد دہلی کی جامع مسجد انگریزوں نے نمازیوں کے لیے بند کر دی تھی۔ یہ مسجد پانچ سال بند رہی۔ نواب سکندر بیگم دہلی گئیں تو ان کی کوشش سے مسجد واگزار کی گئی اور لوگ اس میں نماز پڑھنے لگے۔ حضرت نواب محمد صدیق حسن خاں ۱۸۵۶ء میں نواب سکندر بیگم کے عہد ہی میں بھوپال آئے
Flag Counter