Maktaba Wahhabi

142 - 589
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص ایمان نہیں لایا، اسے کوئی عملِ صالح فائدہ نہیں دیتا، کیونکہ موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کی تصدیق کرنے والا مومن ہوتا ہے اور یہ تصدیق نہ کرنے والا کافر ہے۔ 2۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: (( لَا تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی تُؤْمِنُوْا )) [1] (رواہ مسلم) یعنی ایمان لائے بغیر جنت میسر نہیں ہوتی ہے۔ 3۔اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ زانی، چور اور شرابی ان افعال کو سر انجام دیتے وقت مومن نہیں ہوتا۔[2] (رواہ مسلم) 4۔نیز سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ایمان سے متعلق وسوسہ صریح ایمان ہے۔‘‘[3] (رواہ مسلم) مطلب یہ ہے کہ جب کسی شخص نے وسوسہ کو بڑا سمجھا اور اسے برا جانا تو یہی اس کے ایمان دار ہونے کی دلیل ہے۔ اگر اس میں ایمان نہ ہوتا تو ان وسوسوں کو بڑا اور بُرا کیوں سمجھتا؟ یہ استعظام ہی اس کے ایمان کی علامت ہے۔ 5۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’مومن کو کبھی دنیا میں عطا ملتی ہے اور آخرت میں بھی جزا ملے گی، اور کافر صرف دنیا میں کھاتا پیتا ہے، آخرت میں اس کے لیے کوئی نیکی اور بھلائی نہیں ہے۔‘‘[4] (رواہ مسلم) فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ قُلْ تَمَتَّعْ بِکُفْرِکَ قَلِیْلاً اِِنَّکَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ﴾ [الزمر: ۸] [کہہ دے اپنی نا شکری سے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لے، یقینا تو آگ والوں میں سے ہے] 6۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی حدیث میں آیا ہے:
Flag Counter