Maktaba Wahhabi

193 - 589
اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ جو کافر اپنے آپ کو دین کے معاملے میں حق پر سمجھتا ہے تو وہ اور سرکش منکر برابر ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مذکورہ آیت کے لفظ ’’قسط‘‘ کی تفسیر ’’لا إلٰہ إلا اللّٰه‘‘ کے ساتھ کی ہے اور ضحاک نے اس کی تفسیر میں کہا ہے کہ قسط سے مراد توحید ہے۔[1] ان کی گمراہی اور عدمِ ہدایت کی ایک اور دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿ وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَھُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ *وَاِِنَّھُمْ لَیَصُدُّوْنَھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ مُھْتَدُوْنَ﴾ [الزخرف: ۳۶۔۳۷] [اور جو شخص رحمن کی نصیحت سے اندھا بن جائے ہم اس کے لیے ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں ، پھر وہ اس کے ساتھ رہنے والا ہوتا ہے۔ اور بے شک وہ ضرور انھیں اصل راستے سے روکتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ بے شک وہ سیدھی راہ پر چلنے والے ہیں ] امام بغوی رحمہ اللہ نے آیت: ﴿ وَ ظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ اُحِیْطَ بِھِمْ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ﴾ [یونس: ۲۲] [اور وہ یقین کر لیتے ہیں کہ بے شک ان کو گھیر لیا گیا ہے، تو اللہ کو اس طرح پکارتے ہیں کہ ہر عبادت کو اس کے لیے خالص کرنے والے ہوتے ہیں ] کی تفسیر میں کہا ہے: ’’أي أخلصوا في دعاء اللّٰه، ولم یدعوا أحدا سوی اللّٰہ‘‘[2] [یعنی وہ لوگ مشکل میں گھرنے کے بعد خالص اللہ کو پکارتے تھے اور اللہ کے سوا کسی سے دعا نہیں کرتے تھے] اس سے معلوم ہوا کہ دعا دین ہے اور دعا میں اخلاص توحید ہے، جبکہ غیر اللہ کو پکارنا اور اس سے دعا کرنا شرک ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ غیر اللہ سے دعا کرنا کبھی شرک اصغر ہوتا ہے جیسے بد فالی لینا اور غیر اللہ کی قسم کھانا اور کبھی یہ شرک اکبر ہوتا ہے، جب کہ دعا سے غیر اللہ کی اللہ کی تعظیم جیسی تعظیم مقصود ہو، جس کی قسم کھائی گئی ہے تو اب ان دونوں میں مساوات اور برابری نہ رہی، کیونکہ اسلام میں بد فالی لینے اور غیر اللہ کی قسم کھانے سے ایک مدت کے بعد منع کیا گیا تھا، رہا غیر اللہ سے نفع و ضرر کے اعتقاد سے دعا
Flag Counter