Maktaba Wahhabi

280 - 589
بعد شک کرنے والوں کے پاس شک کرنے کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہ سکتی۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ﴾ [الغافر: ۶۰] [اور تمہاے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا، بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے] چوتھی دلیل: دعا کے عبادت ہونے پر مذکورہ بالا آیات کریمات کے علاوہ سنتِ مطہرہ میں بھی دعا کے عبادت ہونے کے دلائل موجود ہیں ، جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ دعا عبادت کی انواع میں سے ایک اکمل نوع ہے۔ چنانچہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (( إِنَّ الدُّعَائَ ھُوَ الْعِبَادَۃُ )) [1] [بلا شبہہ دعا ہی عبادت ہے] (رواہ أحمد و أبوداود و الترمذي و صححہ، والنسائي و ابن ماجہ و ابن أبي شیبۃ والحاکم) دوسری حدیث کے الفاظ ہیں : (( اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ )) [2]دعا عبادت کا مغز ہے] نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ارشاد فرمانے کے بعد اس کی تصدیق کے طور پر مذکورہ بالا آیت کریمہ ﴿ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ۔۔۔ الخ﴾ [الغافر: ۶۰] تلاوت فرمائی۔ مذکورہ بالا حدیث (( إِنَّ اَلدُّعَائَ ھُوَ الْعِبَادَۃُ )) میں مسند الیہ ’’الدعائ‘‘ اور مسند ’’العبادۃ‘‘ دونوں کو معرفہ لایا گیا ہے اور ان کے درمیان میں ’’ھُوَ‘‘ ضمیر فاصل لائی گئی ہے۔ علماے معانی وبیان اور اہلِ اصول نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ ان تینوں امور (تعریف، مسند الیہ و مسند اور ضمیر فصل) میں سے ہر ایک حصر کا ذریعہ ہے۔ ان میں سے ایک بھی ہو تو وہ حصر کا فائدہ دیتا ہے، چہ جائے کہ یہ سارے آلاتِ حصر اس حدیث کے الفاظ میں موجود ہیں ، پھر حرف تاکید ’’إنَّ‘‘ بھی ان آلات و ذرائع کے ساتھ شامل ہے۔
Flag Counter