Maktaba Wahhabi

327 - 589
[مجھ سے استغاثہ نہیں کیا جاتا، استغاثہ تو صرف اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں ] نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد یہ تھی کہ جو بات بندے کی قدرت میں نہ ہو، اس میں اللہ تعالیٰ ہی سے فریاد رسی کرنی چاہیے۔ اہلِ علم نے کہا ہے کہ ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ یہ بات جان لے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مددگار نہیں ہے۔ مطلق طور پر فریاد رسی اللہ ہی کے پاس ہے۔ اگر اتفاقاً کسی غیر کے ہاتھ پہ کوئی بات حاصل ہو تو وہ مجاز ہے، حقیقت نہیں ہے، کیونکہ حقیقت اللہ ہی کے لیے ہے اور اسی کا نام غیاث اور مغیث ہے۔ امام حلیمی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’الغیاث ھو المغیث‘‘ [غیاث، مغیث ہی کا دوسرا نام ہے] چنانچہ اکثر کہا جاتا ہے: ’’یا غیاث المستغیثین‘‘ یعنی بندے کو سختی میں بچانے والا، اس کی دعا قبول کرنے والا اور اسے تکلیف سے رہائی دینے والا صرف اور صرف اللہ ہے۔[1] صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بارش کی دعا میں کہا تھا: (( اَللّٰھُمَّ أَغِثْنَا )) [2] [اے اللہ! ہماری فریاد رسی فرما (کر بارش نازل فرما)] اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: ﴿ اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ﴾ [الأنفال: ۹] [جب تم اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمھاری دعا قبول کر لی] گویا لفظ ’’مغیث‘‘ کے معنی مجیب و مستجیب کے ہوئے۔ ہاں اتنی بات ہے کہ اغاثہ کا لفظ افعال کے ساتھ مناسب ہے اور استغاثہ اقوال کے ساتھ، لیکن کبھی ایک لفظ کا اطلاق دوسرے لفظ پر ہو جاتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’استغاثہ بایں طور کہ کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے وہ بات چاہے جو ان کے منصب کے لائق ہے، اس میں کسی مسلمان کا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ جو شخص اس میں جھگڑے، وہ کافر ہے یا خطا کار اور گمراہ ہے۔ رہا اس لفظ کا وہ معنی جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نفی فرمائی ہے تو اس کی نفی کرنا واجب ہے، کیوں کہ جو شخص غیر اللہ کے لیے ایسی بات ثابت کرے،
Flag Counter