Maktaba Wahhabi

389 - 589
اس قسم کے مضامین پر مشتمل جملے اردو زبان میں بھی مستعمل ہیں اور جاہل مسلمان بے تکلف ان الفاظ کو ادا کرتے ہیں ، حالانکہ یہ الفاظ اور مضامین کبھی قائل کے حال اور مقصد کے مطابق شرک اکبر بن جاتے ہیں ۔[1] علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اسی کتاب [2] میں شرک، خواہ اکبر ہو یا اصغر، کے ذکر اور اس کی تعریف سے فارغ ہونے کے بعد یہ فرمایا ہے: ’’شرک کی اقسام میں سے ایک قسم مرید کا اپنے شیخ کو سجدہ کرنا اور شیخ کے واسطے توبہ کرنا ہے، جو شرکِ عظیم ہے۔ اسی طرح غیر اللہ کی نذر ماننا، غیر اللہ پر توکل کرنا، غیر اللہ کے لیے عمل کرنا، غیر اللہ کی طرف رجوع کرنا، خاکساری و خواری کرنا، غیر اللہ سے رزق کی جستجو کرنا، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنا، مردوں سے حاجات طلب کرنا، ان سے فریاد رسی چاہنا اور ان کی طرف توجہ کرنا، یہ سارے جہان کے شرک کی اصل اور بنیاد ہے، اس لیے کہ مردے کا عمل تو منقطع ہو چکا، وہ تو اب اپنی جان کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہ رہا، پھر کسی مدد مانگنے والے یا قضاے حاجت کا سوال کرنے والے یا اللہ تعالیٰ کی طرف شفاعت کا سوال کرنے والے کا کیا مالک ہو گا؟ اس قسم کا نظریہ اللہ تعالیٰ کے ہاں شافع اور مشفوع کی حیثیت سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کے پاس اس کے اِذن اور اجازت کے بغیر کوئی کسی کی سفارش نہیں کر سکتا ہے۔ اللہ نے اس شخص کی استعانت اور سوال کو اجازت کا سبب نہیں ٹھہرایا ہے، بلکہ اجازت کا سبب کمالِ توحید ہے، یہ مشرک جو کچھ لایا ہے، وہ منعِ اذن کا سبب ہے نہ کہ اذن کا۔ یہ تو ویسی ہی بات ہوئی کہ کوئی آدمی اپنی کار برآری کے لیے ایسی چیز سے مدد لے جو اس کے حصول کو روکنے والی ہو۔ بالکل یہی حال ہر مشرک کا ہے۔ وہ بے چارہ مردہ خود اس بات کا محتاج ہے کہ کوئی اس کے لیے دعا کرے، اس پر رحم فرمائے اور اس کے لیے استغفار کرے، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں وصیت کی ہے کہ جب ہم قبورِ مسلمین کی زیارت کریں تو ان پر رحم کر کے اللہ تعالیٰ سے ان کی عافیت و مغفرت کا سوال کریں ۔[3]
Flag Counter