Maktaba Wahhabi

483 - 589
بدعات و خرافات کی گرم بازاری اور اختلاف و افتراق اسی وقت عام ہوتا ہے جب اتباعِ کتاب و سنت ترک کر دیا جائے اور لوگ قرآن و حدیث کے مقابلے میں اپنی باتیں پیش کرنے لگیں ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا﴾ [النسائ: ۲۸] [ اگر قرآن غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو لوگ اس میں بڑا اختلاف پاتے] رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (( وَمَن یَّعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِيْ فَسَیَریٰ اخْتِلَافاً کَثِیْراً )) [1] [میرے بعد جو زندہ رہے گا، عنقریب وہ بڑا اختلاف دیکھے گا] کلامِ الٰہی اور کلامِ نبوی دونوں میں ’’اختلاف کثیر‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور دونوں اس بات پر متحد ہیں کہ جو کچھ ان کے موافق نہیں ، وہ ’’ اختلاف کثیر‘‘ میں داخل ہے۔ اس حقیقت کے واضح ہونے کے بعد ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اپنے ہر عقیدے و عمل کو میزانِ اعتدال قرآن و حدیث پر تولے۔ اگر اس میزان پر اس کا عقیدہ وعمل پورا اترے تو اپنے آپ کو مومن، مسلمان، محسن اور متبعِ قرآن و حدیث سمجھے اور اگر قرآن و حدیث کے میزان پر اس کا عقیدہ و عمل پورا نہ اترے تو اپنے آپ کو شیطان کے نقش ہائے قدم پر چلنے والا سمجھے، کیونکہ سارے انسان ایک ہی رب کے بندے اور ایک ہی رسول کی امت ہیں اور ان کی ایک ہی کتاب اور سنت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن و حدیث ہی پر قائم رہنے کا حکم دیا ہے۔ یہ کہیں نہیں فرمایاکہ ہر آدمی کا الگ دین ہے۔ یہ تو قرآن میں کفار کے لیے فرمایا ہے: ﴿ لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ﴾ [الکافرون: ۶] [تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین] ہر مسلمان کے عقیدے و عمل کی بنیاد قرآن و حدیث ہونا چاہیے۔ کسی کے لیے قطعاً جائز نہیں کہ قرآن و حدیث کے ہوتے ہوئے قیاس فاسد اور رائے پر عمل کرے۔
Flag Counter