Maktaba Wahhabi

488 - 589
طرح اس ایک صفت ’’ید‘‘ (ہاتھ) کے بارے میں ہے، ان کا ایسا ہی اعتقاد ہر صفتِ حق کے بارے میں ہے، خواہ وہ صفات قرآنِ کریم میں مذکور ہوں یا حدیث نبوی میں بیان ہوئی ہوں ۔ وہ سب کو ظاہر الفاظ پر تسلیم کرتے ہیں ۔ وہ ظاہر لفظ کے مطابق صفات کا اعتقاد رکھتے ہیں اور لفظ ومعنی بدلنے کو تحریف وتبدیل اور تا ویل جانتے ہیں اور تاویل کو تکذیب کا شاخسانہ سمجھتے ہیں ۔ کسی صفت کو مخلوق کی صفت کی طرح نہیں جانتے۔ کمی بیشی، اضافت اور کیفیت کے بغیر سب پر یکساں ایمان لاتے ہیں ۔ وہ حدیث یا نص کے لفظ کے شرعی اور لغوی معنی کو ختم کرنا نا پسند کرتے ہیں ۔ اگر تاویل کا دروازہ کھول دیا جائے تو پھر کس کی تاویل کو مانا جائے؟ ہر کس وناکس تاویل کر رہا ہے۔ ہر شخص ایک نیا مفہوم و مطلب پیش کر رہا ہے۔ آخر ایک کو قبول کریں ، دوسرے کو چھوڑ دیں ، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ہر ایک عالم ہے، کوئی جاہل تو نہیں ہے۔ گویا تاویل کا دروازہ کھولنا حیرانی کا دروازہ کھولنا اور ضلالت میں پھنسنا ہے۔ اس سے بہتر یہی ہے کہ ظاہر لفظ پر اعتقاد ہو اور کیفیت اللہ کو سونپ دی جائے، جیسے فرمایا: ﴿ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللّٰہُ﴾ [آل عمران: ۷] [ اس کا علم صرف اللہ کو ہے] یہی کمال علم کی دلیل اور عالم و دانشور کا شیوہ ہے۔ رب پاک نے راسخین فی العِلم کا شیوہ بتلایا کہ وہ کہتے ہیں : ﴿اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا﴾ [آل عمران: ۷] [ہم اس قرآن پر ایمان لائے، سب ہمارے رب کی طرف سے ہے] رب پاک نے ان کے اس جذبہ تسلم و رضا کی تعریف کی اور انھیں دانشور بتلایا: ﴿ وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ﴾ [آل عمران: ۷] [نصیحت صرف اصحابِ دانش ہی قبول کرتے ہیں ] اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ تاویل کرنے والے علم میں رسوخ رکھتے ہیں نہ وہ عقل و شعور ہی کے مالک ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب اللہ نے فرمایا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اس کی تا ویل نہیں جانتا تو پھر تاویل کرنا حماقت نہیں تو پھر اور کیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا تاویل کرنے والوں کی تاویل اللہ کو معلوم نہیں تھی کہ مووّلین اللہ کو یہ تاویل بتانے چلے ہیں ؟ نیز کلامِ پاک کا اعجاز تسلیم شدہ
Flag Counter