Maktaba Wahhabi

490 - 589
بجائے حکمتِ یونان سے پہچاننا ایمان کی سلامتی کی دلیل نہیں ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ نے بجا فرمایا ہے: ’’في فطرۃ الإنسان وشواھد القرآن ما یغني عن إقامۃ البرھان‘‘[1] [انسان کی فطرت اور قرآن کی شہادتوں میں جو کچھ ہے، اس کے بعد دلیل لانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے] ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ لفظ ’’قدیم‘‘ اسماے حسنٰی میں سے نہیں ہے۔ اکثر سلف نے اس لفظ سے انکار کیا ہے۔ بعض خلف مثلاً ابن حزم رحمہ اللہ بھی اس کے منکر ہیں ۔ شریعت میں ’’قدیم‘‘ کی جگہ پر ’’اوّل‘‘ آیا ہے جو ’’قدیم‘‘ سے بہتر ہے۔ آخر ہمیں ان الفاظ کو چھوڑ کر، جنھیں اللہ نے اپنے اسما کے لیے استعمال کیا ہے، دوسرے الفاظ استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ متکلمین بھی عجیب ہیں ۔ یہ لوگ قرآن میں جو الفاظ آئے ہیں یا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بتلائے ہیں ، انھیں چھوڑ دیتے ہیں اور انسانی بول چال کے بے معنی الفاظ کا اطلاق اللہ پر کرتے ہیں ، مثلاً اللہ کی تعریف میں یہ لکھتے ہیں کہ وہ نہ عرض ہے نہ جوہر ہے نہ جسم ہے نہ کسی چیز کے اندر ہے نہ کسی جہت میں ہے نہ متحرک ہے نہ نازل ہے نہ داخل عالم ہے نہ خارج ہے۔ اس کے برعکس اللہ نے اپنا تعارف ان الفاظ میں کرایا ہے: ﴿ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ * اَللّٰہُ الصَّمَدُ *لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ *وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ﴾ [سورۃ الإخلاص] [کہہ دو وہ اللہ ہے۔ اکیلا بے نیاز اللہ۔ اس نے نہ جنا نہ وہ جنا گیا۔ کوئی اس کا ہمسر نہیں ] اس سورت اور مذکورہ متکلمین کی تعریف میں اب اگر کوئی زیرک موازنہ کرے تو اسے حقیقت کا اندازہ ہو گا اور اسے دونوں تعریفوں کا فرق معلوم ہو جائے گا۔ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گا کہ متکلمین کی تعریف اور ان کی عبارت بالکل لغو اور مہمل ہے اور مذکورہ تعریف ربانی یعنی مذکورہ سورت جو وحی منزل ہے، اس کے ہر لفظ کے اندر بہت سے معانی اور مطالب ہیں اور متکلمین کی تعریف میں ہر زہ سرائی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ قدیم کی طرح ایک لفظ ’’واجب الوجود‘‘ ہے۔ قرآن و حدیث میں اس لفظ کی جگہ اللہ نے اپنے لیے ’’آخر‘‘ استعمال کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ ہمیشہ باقی رہے گی۔ جس بات کی وضاحت متکلمین ’’واجب الوجود‘‘ سے کرنا چاہتے ہیں ، رب پاک نے ’’آخر‘‘ سے کی ہے۔ پھر ہم ایک
Flag Counter