نہیں ہے۔ اس نزول کی کیفیت و تمثیل ان کے نزدیک مسلم ہے۔ نزول کے سلسلے میں جو صحیح حدیثیں نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم سے مذکور ہیں ، انھیں ان کے ظاہری معنی کے ساتھ اصحابِ حدیث مانتے ہیں اور اس کا علمِ کیف اللہ کو سونپتے ہیں ۔ امام سحاق بن راہویہ سے امیر عبداللہ بن طاہر نے کہا:
اے ابو یعقوب! حدیث میں آیا ہے: (( یَنْزِلُ رَبُّنَا کُلَّ لَیْلَۃٍ إِلٰی السَّمَائِ الدُّنْیَا )) [ہمارا رب ہر رات آسمانِ دنیا پر آتا ہے] بتاؤ! یہ نزول کیسا ہے؟ انھوں نے کہا:
’’أعز اللّٰه الأمیر! لا یقال لأمرالرب کیف؟ إنما ینزل بلا کیف‘‘[1]
[اللہ امیر کو عزت بخشے! اللہ کے معاملے میں چوں و چرا نہیں کیا جاتا۔ وہ کیف کے بغیر نازل ہوتا ہے]
امام ابن مبارک رحمہ اللہ سے کسی نے نزول کی کیفیت پوچھی تو انھوں نے فرمایا:
’’ینزل کیف یشائ‘‘ [اللہ جیسے چاہتا ہے اترتا ہے]
پھر کہا: ’’إذا جائک الحدیث عن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ و سلم فاخضع لہ‘‘[2]
[جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی کوئی حدیث تم تک پہنچے تو اس کے آگے جھک جاؤ]
حدیثِ نزول صحیحین میں آئی ہے۔ اس مسئلے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ایک مستقل کتاب ہے۔[3] نزولِ رب کے مسئلے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے یہ الفاظ ہیں :
(( إِذَا مَضٰی نِصْفُ اللَّیَلِ أوْ ثُلُثَاہُ یَنْزِلُ اللّٰہُ إلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا )) [4]
[جب آدھی رات یا دو تہائی رات گزر جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے]
امام صابونی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی سند سے ذکر کیا ہے، پھر لکھا ہے کہ اخبارِ نزول کو علماے حجاز و عراق نے اپنی سند سے ثابت کیا ہے۔ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے کہا ہے:
’’نزولِ رب کے سلسلے میں وارد احادیث کے مشتملات پر یقینِ قلب، اقرارِ لسان اور کامل یقین کے ساتھ ہم گواہ ہیں ۔ ہم کیفیت بیان نہیں کرتے، کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم کو
|