[اس دن بہت سے چہرے ترو تازہ ہوں گے، اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے]
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ فرمایا: تم کو سورج کے دیکھنے میں ، جب کہ وہ صاف ستھرا ہو، کچھ زحمت ہوتی ہے؟ ہم نے کہا: نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم اپنے رب کے دیکھنے میں شک نہ کرو گے، جس طرح تم سورج چاند کے دیکھنے میں شک نہیں کرتے۔[1]
دوسری روایت میں یوں آیا ہے:
’’بے شک قریب ہے کہ تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح تم سورج کو دیکھتے ہو اور تم کو اس کے دیکھنے میں کچھ دھوکا نہیں ہوتا۔‘‘[2]
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’قصیدہ نونیہ‘‘ میں رویتِ باری تعالیٰ کے اثبات میں ایک مستقل فصل قائم کی ہے، جس کے بعض اشعار یہ ہیں :
ویرونہ سبحانہ من فوقھم
نظر العیان کما یری القمران
ھذا تواتر عن رسول اللّٰه لم
ینکرہ إلا فاسد الإیمانك[3]
[لوگ رب کو اپنے اوپر بلا حجاب دیکھیں گے، جس طرح سورج اور چاند کو آنکھ والا دیکھتا ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے تواتر سے ثابت ہے، اس کا انکار وہی کر سکتا ہے جس کا ایمان خراب ہو چکا ہو]
شیخ الاسلام نے بھی اس مسئلے میں ایک مستقل تالیف رقم کی ہے۔ احادیث میں رویتِ باری تعالیٰ کی بہت سی دلیلیں ہیں ، سب کا احصا ممکن نہیں ۔ ’’حادي الأرواح‘‘ میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس مسئلے پر تفصیل سے لکھا ہے۔ مشہور یہ ہے کہ معتزلہ اور شیعہ رویت کے منکر ہیں ۔ خوارج اور بعض مرجیہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ ان فرقوں کی دلیل لفظ ﴿لَنْ تَرَانِیْ﴾ [تم مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکتے]
|