Maktaba Wahhabi

529 - 589
امام رازی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ کو خواب میں مخصوص صورت میں دیکھنا جائز ہے۔ معلوم ہوا کہ دنیا میں کوئی اللہ کو بہ چشم سر، حالت بیداری میں نہیں دیکھ سکتا۔ ہاں خواب میں اگر کوئی دیکھے تو دیکھ سکتا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بار ہا خواب میں اللہ کو دیکھا، بات چیت کی، یہ پوچھا کہ اے رب! تیرا قرب کس عمل سے مل سکتا ہے؟ فرمایا: تلاوتِ قرآن سے۔ کہا: سمجھے یا بے سمجھے؟ فرمایا: جس طرح ہو۔ ابو منصور ماتریدی نے خواب میں رویت باری کا انکار کیا ہے، لیکن ان کا یہ انکار حدیثِ خیر الانام صلی اللہ علیہ و سلم کے منافی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے دلیل سمعی رویت باری کو دارِ آخرت میں واجب بتاتی ہے۔ رب پاک نے فرمایا: ﴿ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا الْحُسْنٰی وَ زِیَادَۃٌ﴾ [یونس: ۲۶] [جنھوں نے اچھائی کی ان کے لیے حسنیٰ ہے اور مزید] ﴿ لَھُمْ مَّا یَشَآئُ وْنَ فِیْھَا وَلَدَیْنَا مَزِیْدٌ﴾ [قٓ: ۳۵] [ان کو جنت میں حسبِ خواہش ملے گا اور ہمارے پاس مزید ہے] ﴿زیادۃ﴾ اور ﴿مزید﴾ سے مراد یہی رویتِ باری ہے۔ اس باب میں سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ کی جو روایت شیخین کے حوالے سے نقل کی گئی ہے، اسے اکیس صحابہ نے روایت کیا ہے۔ اس رویت پر امت کا اجماع ہو چکا ہے۔ نسفی کا یہ لکھنا کہ یہ رویت کسی مکان میں ہو گی نہ جہت میں ، بلکہ دیکھنے والے بندے اور اللہ کے درمیان مقابلہ اتصالِ شعاع اور ثبوتِ مسافت کے بغیر ہو گی، اس قول کا شق اول گو درست ہو، مگر چونکہ یہ قیود کسی مرفوع حدیث میں نہیں آئی ہیں تو ان کا ذکر کرنا ہی کیا ضروری ہے۔ ظاہر حدیث پر ایمان لانا اور کیفیت کو اللہ کے سپرد کرنا ہمارے لیے کافی ہے۔ ان کا یہ سارا بکھیڑا اس لیے ہے کہ تشبیہ نہ لازم آئے۔ لیکن ہمیں تشبیہ سے کیا غرض؟ جیسا اللہ ویسی اس کی رویت۔ وہ کسی طرح دکھلائی دے، مخلوق کی تمثیل نہیں ہو سکتی۔ یہ رویت جنت میں جانے سے پہلے اور جنت میں جا کر دونوں جگہ ہو گی۔ کتاب و سنت اور
Flag Counter