Maktaba Wahhabi

549 - 589
ان کا کوئی نہ کوئی گروہ ہمیشہ کسی نہ کسی خطۂ زمین میں غالب و منصور رہے گا۔ مخالف کے ہاتھ سے اس کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ہے کہ ہر ابتداے صدی میں ایک مجدد پیدا ہوتا رہا ہے جس نے سنت کو قائم کیا اور بدعت کو دور کیا۔ یہ تجدید کبھی زبان و بیان کے ذریعے ہوتی ہے اور کبھی سیف و سنان کے ذریعے۔ کبھی ایک عصر میں متعدد اشخاص مجدد ہوئے۔ کوئی کسی خطے میں اور کوئی کسی علاقے میں ۔ کوئی مغرب میں ظاہر ہوا، کوئی مشرق میں ۔ کوئی زمرۂ اہلِ علم سے اٹھا، کوئی طائفہ ملوک سے اور کوئی لشکر سے۔ اس لیے یہ بات اہلِ سنت کے عقیدے میں داخل ہے کہ شریعت محمدیہ ۔علی صاحبہا السلام والتحیۃ۔ اکمل شریعت ہے اور یہ دین جملہ ادیان کا ناسخ ہے۔ یہ کمال صرف اس امت کو حاصل ہے، جس کے لیے کتاب و سنت کے منطوقات و منصوصات قیاسات و مجتہدات کے بغیر کافی ہیں ، کیونکہ قرآن و حدیث کے دلائل جملہ حوادثِ ظاہرہ وباطنہ کے لیے کافی ہیں ۔ فاسد آرا اور نارسا عقلوں کی انھیں ضرورت نہیں ۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم خاتم الانبیا ٹھہرے تو ضروری ٹھہرا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی دوسری شریعت کی ضرورت نہ ہو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ [المائدۃ: ۳] [آج میں نے تمھارے لیے دین کو مکمل کر دیا اور تمھارے اوپر اپنی نعمت کا اتمام کر دیا اور تمھارے لیے دینِ اسلام کو پسند کر لیا] جس کا خیال یہ ہو کہ دین کا کام فقہی تفریعات و فتاوی کے بغیر نہیں چل سکتا، اس نے گویا اس آیت کا انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایاہے: ﴿ وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ﴾ [آل عمران: ۸۵] [جس نے اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کی تلاش کی تو ہر گز اس کی تلاش مقبول نہ ہو گی] یعنی اس کے سوا اللہ کے یہاں کوئی دین مقبول نہیں ہے، خواہ مجوس کا دین ہو یا ہنود کا، یہود کا ہو، یا نصاری کا۔ موسوی شریعت کی بنیاد قہر و جلال پر تھی، اس میں قتلِ نفس، تحریمِ طیبات اور تعجیلِ عقوبات کا حکم تھا اور غنائم ان کے لیے ممنوع تھے۔ موسیٰ علیہ السلام بھی عظمت وہیبت، شدتِ غضب اور بطشِ اعداے دین میں ایسے کامل تھے کہ کوئی ان کے طلعت مبارک پر نظر نہیں کر سکتا تھا۔ عیسیٰ علیہ السلام مظہر لطف و جمال
Flag Counter