Maktaba Wahhabi

567 - 589
[اگر تم ان کبائر سے بچو جن سے تم روکے گئے ہو تو ہم تمھارے گناہ ختم کر دیں گے] یعنی اگر تم بڑے گناہوں سے بچو گے تو ہم تمھارے چھوٹے گناہوں سے درگزر کر دیں گے، کیونکہ حسنات سیئات کو دور کر دیتے ہیں ۔ کبائر کو بخشا جا سکتا ہے، لیکن اگر بہ طور بغاوت ہو کہ گناہ کبیرہ کو حلال سمجھ لیا جائے تو پھر یہ کفر ہو گا۔ کبیرہ گناہ کی تعداد محدود نہیں ہے۔ وہ امور جن پر کتاب و سنت میں جہنم کا وعدہ ہے، یا جن پر حد مقرر کی گئی ہے، یا جن کے ارتکاب کو خروجِ دین قرار دیا گیا ہے، یا جس کا فساد بہت عظیم ہو یا جن پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے گناہ کبیرہ کا حکم لگایا ہے، وہ سب کبائرمیں داخل ہیں ۔ ’’زواجر‘‘ میں ابن حجر مکی رحمہ اللہ نے اور ’’دلیل الطالب‘‘ میں ہم نے چار سو سے زائد کبائر گنوائے ہیں ۔ اللّٰهم احفظنا۔ دنیا اور آخرت میں اللہ کے دو کام دو طرح پر انجام پاتے ہیں ۔ ایک سنتِ الہیہ کے مطابق جو معمول کے مطابق بندوں میں جاری و ساری رہتے ہیں ۔ دوسرے خرقِ عادت کے طور پر، اس بنیاد پر کسی شخص کا گناہ کبیرہ معاف ہو سکتا ہے۔ جو توبہ کیے بغیر مر جائے، اس کے کبائر معاف نہیں ہو سکتے، لیکن اہلِ سنت کا خیال ہے کہ اللہ کی رحمت بڑی ہے، اس کا عفو عام ہے، اس کے دائرہ عفو کو تنگ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح حقوق عباد کو رب پاک بہ طریق خرق عادت معاف کر سکتا ہے۔ اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ حسبِ عادت مستمرہ زہر کھانے والا مر جاتا ہے، لیکن کبھی کوئی دوسرا زہر کھاتا ہے تو نہیں مرتا، یہ خرقِ عادت ہوا۔ اس طرح بعض کبائر کا معاف کیا جانا بطور خرقِ عادت کے ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں جو نصوصِ شریعت وارد ہیں اور باہم متعارض معلوم ہوتے ہیں ، ان میں توفیق و تطبیق کی یہی صورت ہے جو ذکر کی گئی ہے، واللّٰہ أعلم۔ بہر حال ہر مومن با کمال کے لیے لازم ہے کہ جہاں تک ہو سکے، سارے کبائر، صغائر اور حقوقِ عباد سے تائب ہو کر مرے، ورنہ خدا کو اختیار ہے کہ اس کے گناہ معاف فرما ئے یا معاف نہ فرمائے، اگرچہ بندے کو اس میں کچھ اختیار نہیں ہے، لیکن ناامیدی بھی ٹھیک نہیں ، بلکہ ناامیدی کفر ہے۔ ٭٭٭
Flag Counter