Maktaba Wahhabi

71 - 589
’’صدیق حسن خاں ‘‘ میں کیا ہے۔ ان بزرگانِ ذی احترام میں سے ایک بزرگ مولوی قدرت اﷲ قدرت رحمہ اللہ تھے، جو اپنے دور کے مشہور شاعر اور عالم دین تھے۔ ان کا خاندان ہمیشہ فضل و کمال اور شعر و ادب میں ممتاز رہا۔ ۱۹۷۳ء میں ہندوستان کے منصب نائبِ صدارت پر جسٹس ہدایت اﷲ رحمہ اللہ فائز تھے، وہ مولوی قدرت اﷲ قدرت کے حقیقی پوتے تھے۔ نواب صاحب سے مولوی قدرت اﷲ قدرت کے گہرے مراسم تھے اور مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی رحمہ اللہ کے مدرسے میں نواب صاحب رحمہ اللہ اور مولوی قدرت اﷲ صاحب رحمہ اللہ ہم مکتب تھے اور دونوں کے حجرے بھی قریب قریب تھے۔ اب ایک عجیب واقعہ ملاحظہ فرمائیے جو ڈاکٹر رضیہ حامد نے تحریر فرمایا ہے۔ یہ واقعہ مولانا سید عبد الخالق نقوی پروفیسر عربی اسکول آف فارن لنگویجز دہلی نے محترمہ مصنفہ کے والد مکرم سید فتح علی صاحب سے بیان کیا تھا۔ ایک دن مولوی قدرت اﷲ صاحب فجر کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں جانے لگے تو دیکھا کہ صدیق حسن خاں سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں ۔ مولوی صاحب نے ان پر اپنا دوشالہ اڑھا دیا۔ گرمی حاصل ہوئی تو صدیق حسن خاں کو نیند لگ گئی۔ جب نیند کھلی تو درس شروع ہو چکا تھا۔ وہ درس میں پہنچے تو مولانا فضل الرحمن نے فرمایا: ’’کہیے نواب صاحب! اب تشریف لا رہے ہیں ۔‘‘ یہ بات صدیق حسن خاں کی طبیعت پر گراں گزری اور وہ اپنے حجرے میں آکر ہچکیوں سے رونے لگے۔ مولوی قدرت اﷲ نے جا کر حال معلوم کیا تو انھوں نے مولانا کے الفاظ سنائے اور انھیں طنز قرار دیا۔ لیکن مولوی قدرت اﷲ یہ جملہ سن کر محظوظ ہوئے اور بولے: ’’ارے روتا کیوں ہے؟ دیکھنا حضرت کا کہنا سچ ثابت ہوگا اور تو ایک دن نواب بنے گا۔‘‘ پھر مولوی صاحب نے ایک پرچہ ان کو لکھ کر دیا کہ جب صدیق خاں نواب ہوں گے تو قدرت اﷲ کو ایک سو چودہ روپے کی نوکری دیں گے۔ صدیق حسن خاں نے اس پرچے پر دستخط کر دیے اور بات ختم ہوگئی۔ حصولِ تعلیم کے بعد تلاشِ معاش کے لیے صدیق حسن خاں بھوپال آئے اور مولوی قدرت اﷲ میسور چلے گئے۔ جب شاہ جہاں بیگم سے صدیق حسن خاں کی شادی ہوگئی تو قدرت اﷲ نے بھوپال کا رخ کیا اور نواب صدیق حسن خاں کے پاس تشریف لائے اور وہ پرچہ انھیں دکھایا۔ نواب صاحب بہت خوش ہوئے اور فوراً ان کو ایک سو چودہ روپے ماہانہ پر مہتمم کوٹھیات کے عہدے پر مقرر فرما دیا۔[1]
Flag Counter