Maktaba Wahhabi

84 - 589
مضاف کروں تو بھی یہ اضافت درست ہے۔[1] چنانچہ اکثر اضافات ائمۂ علم کی طرف سلفِ امت کے اسی قبیل سے تھے۔‘‘ (ص: ۱۳) ’’مشکل تو یہ ہے کہ میں تو دلیل کو مذہب کہتا ہوں نہ تقلید کو، اور لوگ اعتراض مجھ پر ازروئے تقلید کرتے ہیں ۔‘‘ (ص: ۲۶) ’’ائمۂ سلف پر طعن مخالفتِ سنت کی کرنا انصاف کا خون بہانا ہے، ہاں جو مقلد ان کے بعد وضوحِ دلیلِ کتاب و سنت کے تقلیدِ رائے بحت پر جامد ہیں ، ان کو خاطی سمجھتا ہوں ۔‘‘ (ص: ۲۷) ’’مجھے یہ بات معلوم ہے کہ اﷲ و رسول کے سوا کسی کا اتباع کسی شخص پر امتِ اسلام میں سے واجب نہیں ہے اور اسی وجہ سے سارے سلف تقلیدِ رجال سے منع کرتے آئے ہیں ۔‘‘ (ص: ۱۱۸) ’’رجماً بالغیب مجھ پر یہ طوفان باندھا گیا کہ میں خدانخواستہ حق میں ائمہ اربعہ کے عموماً اور حق میں امام اعظم رضی اللہ عنہ کے خصوصاً بے ادب نا مہذب ہوں [2] حالانکہ یہ نرا افترا ہے، اس کی تکذیب کے لیے میرا رسالہ ’’جلب المنفعۃ‘‘ نام بس کرتا ہے۔ اگر میں ایسا ہوتا تو اپنی کتبِ فقہ میں ہرگز کسی مسئلہ حنفی کی ترجیح نہ کرتا ۔۔۔ بے شبہ میں کسی کی رائے مجرد و اجتہاد کا مقلد نہیں ہوں ، جب تک کہ اس کو موافق دلیل و سنت کے نہ کر لوں ۔ خواہ وہ علم ظاہر سے علاقہ رکھتا ہو یا علم باطن سے ۔۔۔۔‘‘ (ص: ۱۱۹) ’’پھر مجھ سا شخص جو بعد حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی عالم اور امامِ امت کی تقلید کا وجوباً قائل نہیں ہے، وہ صاحبِ کتاب التوحید(شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی رحمہ اللہ)کی تقلید کیوں کرنے لگا۔‘‘ (ص: ۱۲۰)
Flag Counter