Maktaba Wahhabi

92 - 589
علما میں اس کی تفصیل خوب لکھی ہے۔ معاصرت اصل منافرت ہوتی ہے۔ دیکھو حافظ ابن حجر و عینی و سیوطی و سخاوی و علامہ ابن تیمیہ ابو حیان وغیرہم جن میں کیا کچھ ہوچکا ہے۔ خطا و نسیاں اور سہو و غلط لوازمِ بشری سے ہیں ۔ انبیائ علیہم السلام کے سوا کوئی معصوم نہیں ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے: ومن ذا الذي ترضیٰ سجایاہ کلھا کفی المرء نبلاً أن تعد معائبہ صاحب ’’اکتفاء القنوع‘‘ کو تو جیسے خبر پہنچی، اس کے مطابق لکھا۔ بعض لوگ اور ہندوستان میں بھی اس قسم کا خیال رکھتے تھے۔ اس خیال کی بنا یا تو نادانی پر ہے یا حسد پر۔ میں نے جو کچھ لکھا ہے، اپنا دیکھا بھالا جانا بوجھا لکھا ہے۔ شیخنا المرحوم کو خاکسار سے ایک طبعی مناسبت ایسی تھی کہ شاید ویسی کسی سے ہو۔ جب مدرسہ سلیمانیہ کا اہتمام اُن کے سپرد ہوا اور میں بھی وہیں مدرس تھا تو اکثر ملاقات و یکجائی رہتی تھی۔ عجب لطف و محبت سے پیش آتے تھے۔ ہر وقت ہنس کر کشادہ پیشانی سے ملتے۔ بغایت حسنِ خلق کا برتاؤ رکھتے تھے۔ ’’مسک الختام شرح بلوغ المرام‘‘ کا مبیضہ مدرسے ہی میں کیا۔ یہ کتاب دو مجلد کلاں میں ہے۔ دوبار اپنے ہاتھ سے اس کو لکھا۔ جب میر منشی ہوئے، پھر نائب دوم، پھر نواب بنے تو مجھے بہ اجازت سرکار عالیہ ۔دام اقبالہا۔ اپنی خدمت میں بلا لیا۔ اس وقت سے لے کر ان کی وفات تک ان کی خدمت میں رہا۔ جس لطف سے پیش آتے تھے، وہی لطف ہمیشہ رہا۔ خفا ہونا کیسا! کسی فکر میں ہوں ، جب ملیں تو مسکرا کر ملیں ۔ ایسا خلق کسی کا دیکھا نہ سنا۔ شرح ’’درر بہیہ‘‘ مسمّٰی بہ ’’روضہ ندیہ‘‘ تالیف فرمائی۔ مسودہ خاص سے میں نے ایک نسخہ نقل کیا، تاکہ طبع کے لیے لکھنؤ جائے۔ بعد ازاں آٹھ ماہ میں ’’فتح القدیر‘‘ سے ’’فتح البیان‘‘ ملخص فرمائی۔ پھر مدارک و خازن سے اس پر اضافہ کیا۔ پھر منظور ہوا کہ جمل (شرح جلالین) وغیرہ سے کچھ اور زیادہ ہو، چوں کہ اصل مسودہ میں اس کی گنجایش نہ تھی، اس لیے مجھے حکم دیا کہ مسودہ سے مبیضہ کروں ۔ دو تین سال میں خاکسار نے اس کا مبیضہ کیا، جس قدر اجزا تیار ہوتے خدمت شریف میں پیش کرتا تو آپ جمل سے اس پر اضافہ فرماتے تھے۔ جب چھپنا شروع ہوا تو اس کی کاپی کا مقابلہ میں اور وہ کرتے۔ وہ پڑھتے تھے اور میں سنتا تھا۔ اسی طرح ساری کتاب کا مقابلہ ہوا۔ پھر پے درپے کتب تالیف فرماتے رہے۔ سوائے چند کتب کے جو لکھنؤ یا قسطنطنیہ و مصر میں طبع ہوئیں ، ساری تالیف کا مقابلہ میں نے اور انھوں
Flag Counter