Maktaba Wahhabi

309 - 545
اس کی جھولی میں آگرتا ہے۔“ اس تعریف کو سامنے رکھ کر کہا جاتا ہے کہ پرائز بانڈمیں قمار کا کوئی پہلو نہیں پایا جاتا اور نہ ہی یہ تعریف اُس پر صادق آتی ہے کیونکہ جوئے میں اصل رقم کے ڈوبنے کا خطرہ بھی ہوتا ہے اور اُس رقم کے بڑھنے کا امکان بھی ہوتا ہے لیکن انعامی بانڈز میں پرائز بانڈہولڈر کی اصل رقم قطعی محفوظ ہوتی ہے وہ جب چاہے بینک کو یہ بانڈ واپس کر کے اُس پر لگائی ہوئی رقم کھری کر سکتا ہے۔ اسی طرح علماء نے جو تعریفات سُود سے متعلق بیان کی ہیں بعض کے نزدیک وہ بھی پرائز بانڈ پر صادق نہیں آتیں، اس طرح تمام تعریفات کا ذکر کر کے کہا جاتا ہے کہ نہ یہ جوا ہے، نہ سوُد ہے،نہ لاٹری ہے اور نہ شرط ہے لہٰذا یہ جائز ہے اور جواز کے لیے وہ حدیث پیش کی جاتی ہے جس میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض خواہ کو قرض واپس کرتے وقت اُس کی اصل رقم سے بڑھا کر دیا، لہٰذا گورنمنٹ نے بھی عوام الناس سے جو قرض لیا تھا وہ اُسے بڑھا کر دینا چاہتی ہے تو اس میں کیا ہرج ہے؟ پھرچونکہ گورنمنٹ چند افراد کو یہ انعام دینا چاہتی ہےاس لیے قرعہ اندازی کر لی جاتی ہے تاکہ نزع کا پہلو پیدا نہ ہو اور قرعہ اندازی کا عمل بھی کتاب و سنت سے ثابت ہے لہٰذا پرائز بانڈ پر نکلنے والا انعام شرعاً درست اور جائز ہوا۔ © جہاں تک تعر یفات کامختلف فیہ ہونا ہے یا اُن تعریفات کا صادق نہ آنا ہے یہ در حقیقت ایک حیلہ اور بہانہ ہے کہ اس پر یہ تعریفات صادق نہیں آتیں، سوال یہ ہے کہ کیا یہ تعریفات اللہ جل جلالہ نے کی ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہیں،
Flag Counter