خانے میں بادشاہ کا پیغام پہنچا اور خواب کی تعبیر ان سے پوچھی گئی تو حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب کی تعبیر تو بعد میں بتلائی کہ سات سال کا قحط آنے والا ہے لیکن اس قحط سے نجات حاصل کرنے کا راستہ پہلے بتادیا چنانچہ فرمایا کہ:
﴿فَمَا حَصَدْتُمْ فَذَرُوهُ فِي سُنْبُلِهِ إِلا قَلِيلا مِمَّا تَأْكُلُونَ﴾[1]
اس آیت سے یہ استنباط کیا گیا ہے کہ داعی حق صرف حرام کام کو حرام کہہ دینےپر اکتفا نہ کرے یا صرف کسی مصیبت کو بیان کرنے پر اکتفاء نہ کرے کہ یہ مصیبت آنےوالی ہے بلکہ اپنے امکان کی حد تک اس سے نکلنے کا راستہ بھی بتائے اور یہ راستہ اسی وقت بتایاجاسکتا ہے جب آدمی معاملات اور حقائق سے واقف ہو۔
4۔ انبیاء کے فرائض میں یہ بات بھی داخل ہے کہ وہ خیر وشر دونوں راستے اُمّت کو بتائیں تاکہ اُمت شر سے بچ کر خیر کا راستہ اختیار کرے،صرف شر سے روکنا اورخیر کا راستہ نہ بتانا کافی نہیں ہے،آیت﴿وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ﴾ سے بھی یہی صراحت ہوتی ہے کہ ہم نے خیر اور شر دونوں راہیں بتلادیں کہ بُرے راستے سے بچے اور اچھے راستے پر چلے،
5۔جب اللہ جل جلالہ نے زِنا کو حرام کہہ دیاتو اس کے متبادل نکاح کا راستہ بھی بتادیا تاکہ وہ زِنا سے بچ کر نکاح کاراستہ اختیار کرلے،یہی وجہ ہے کہ قرآن وحدیث میں اکثر وبیشتر جگہوں میں”نہی عن المنکر“ کے ساتھ ساتھ امر بالمعروف کا ذکر بھی ہوتا ہے،تاکہ انسان جب گناہ کا راستہ ترک کرے تو نیکی کا راستہ بھی اختیار کرے۔
6۔ڈاکٹر اور طبیب کے فرائض میں یہ بات بھی داخل ہے کہ وہ پرہیزی اشیاء کے
|