Maktaba Wahhabi

382 - 545
دلیل ہے؟ہرگز نہیں!! اگرکسی مرابحہ میں وہ تمام شرائط جو اسلامی اُصولوں پر مبنی ہیں پائی جائیں اور اُن ضروری شرائط کو پورا بھی کرلیا جائے ،تو محض نفع کے تعین کے لیے شرح سُود کو بطور حوالہ استعمال کرنے سے یہ عقد غیر صحیح اور حرام نہیں ہوگا،اس لیے کہ معاملہ خود سُود پر مشتمل نہیں ہے،شرح سُود کو تو صرف حوالے کے طور پراستعمال کیا گیا ہے اس لیے یہ معاہدہ ناجائز نہیں ہوگا،البتہ اس میں پائے جانے والے تشابہ کو ناپسندیدہ کہا جاسکتا ہے۔ لیکن محترم تقی عثمانی صاحب نے درج ذیل حدیث سے جو استنباط فرمایا ہے اس کی حیثیت ایک حیلے سے زیادہ کچھ نہیں اورزیر بحث مسئلہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور اس پر عمل بھی”بیع عینہ“(Buy back) کی صورت کو پیدا کرتا ہے، چنانچہ خیبر کی جنیب کھجوروں کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ایک صحابی رضی اللہ عنہ خیبر کی جنیب کھجوروں کا ایک صاع معمولی کھجوروں کے دو صاع کے بدلے خرید کرلائے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے سودقراردیا،لیکن ساتھ ہی متبادل طریقہ یہ بتایا کہ معمولی کھجوروں کے دوصاع کو پہلے درہموں سے بیچ دو،پھر اُن درہموں سے ایک صاع جنیب کھجور خرید لو۔یہاں غورطلب بات یہ ہے کہ معمولی کھجوروں اور جنیب کھجوروں کے درمیان شرح سُود ایک صاع بمقابلہ دوصاع تھی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوصاع معمولی کھجور کو درہموں سے بیچ کراُن درہموں سے ایک صاع جنیب کھجور خرید لو۔اب جس شخص سے دوصاع معمولی کھجوروں کا معاملہ ہورہاہے۔اگراُس کے ساتھ یہ طے ہوجائے کہ ہم ان دوصاع کی قیمت میں اتنے ہی درہم مقرر کریں گے جتنے درہم میں ایک صاع جنیب کھجور آجاتی ہے،
Flag Counter