Maktaba Wahhabi

383 - 545
چاہے بازار میں معمولی کھجوروں کی قیمت کچھ بھی ہو،اور اسی اصول کے مطابع بیع ہوتو کیا اس بیع کو اس لیے ناجائز کہا جائے گا کہ اس میں قیمت مقرر کرتے ہوئے شرح سُود کو مد نظر رکھا گیا ہے؟ اگر ایسا کرناجائز نہ ہوتا توحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ طریقہ بتاتے ہوئے شرط لگاتے کہ معمولی کھجوریں دراہم کے بدلے بازاری قیمت پر بیچی جائیں،جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ قید لگائی: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم: (( ‏ لاَ بَأْسَ أَنْ تَأْخُذَهَا بِسَعْرِ يَوْمِهَا مَا لَمْ تَفْتَرِقَا وَبَيْنَكُمَا شَىْءٌ))[1] ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں کوئی مضائقہ نہیں بشرط یہ کہ اسی نرخ سے لو اور باہم جدا ہونے سے پہلے معاملہ طے ہوجائے۔“ لیکن جنیب والی حدیث میں آپ نے ایسی کوئی قید نہیں لگائی جس کامطلب یہ ہے کہ فریقین جس نرخ پر بھی معمولی کھجوریں درہموں سے بیچنے پر راضی ہوجائیں،درست ہے اور چونکہ اصل مقصد جنیب کھجوریں خریدنا ہے اس لیے اگراتنے ہی دراہم قیمت مقرر کریں جتنے میں ایک صاع جنیب کھجور آجاتی ہو،تو اس میں عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں ہے،اس سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر بیع یا اجارہ اپنی شرائط کے مطابق صحیح ہوں تو صرف اس وجہ سے اُسے حرام یا سُود نہیں کہاجاسکتا کہ اس کی قیمت یا اُجرت کا تعین سُود کے برابر کیاگیاہے ۔ “[2]
Flag Counter