Maktaba Wahhabi

406 - 545
اسی طرح مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ میں کتاب القراض میں دور فاروقی کا جو واقعہ درج ہے اُس میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی سفارش پر اُسے مضاربت قراردے کر نصف منافع عبد اللہ رضی اللہ عنہ اور عبیداللہ رضی اللہ عنہ میں تقسیم کیا اور نصف بیت المال میں مع راس المال کے جمع کیا۔[1] اس کے باوجود یہ نصف شرح شرعی تقاضا نہیں ہے، صحیح یہی ہے کہ فریقین اپنے لیے اپنی صوابدید پر کوئی ایک تناسب متعین کر لیں۔ عہد فاروقی رضی اللہ عنہ کے مندرجہ بالا واقع سے ہمیں تین باتیں بخوبی معلوم ہوتی ہیں جو اس سے واضح طور پرمستنبط ہو رہی ہیں۔ 1۔اس دور میں سرمایہ اور محنت کی نفع میں برابر شراکت ہوتی تھی۔ 2۔مضاربت کی شکل میں سرمایہ محنت کرنے والے کے پاس بطور امانت ہوتا ہے اگر کسی وجہ سے مال تلف ہو جائے یا سرمایہ کا نقصان ہو جائے تو اس کا تاوان عامل (محنت کرنے والے)پر نہیں پڑتا۔ عامل کا نقصان اُسکی محنت کا نقصان ہے۔ 3۔قرض کی صورت میں مقروض ہر طرح کے نقصان کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ ہر حال میں سرمایہ اور محنت کا حصہ برابر ہو یعنی بعض کاروبار ایسے ہوتے ہیں جن میں سرمایہ کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے اور محنت کم، ایسی صورت میں محنت کا حصہ تہائی یا چوتھائی مقرر کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جس کام کاج میں سرمایہ کی کم اور محنت کی زیادہ ضرورت ہو، تو محنت کا حصہ بڑھ جائے گا، چنانچہ
Flag Counter