Maktaba Wahhabi

407 - 545
خلفائے راشدین کے دور میں عموماً زمینوں کی بٹائی ، تہائی یا چوتھائی پر ہوتی رہی ہے یعنی زمین والےکا حصہ 3/1یا4/1باقی محنت کش کا ہوتا تھا۔ (عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ قَالَ مَا بِالْمَدِينَةِ أَهْلُ بَيْتِ هِجْرَةٍ إِلاَّ يَزْرَعُونَ عَلَى الثُّلُثِ وَالرُّبُعِ‏.‏ وَزَارَعَ عَلِيٌّ وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ وَعَبْدُ اللّٰهِ بْنُ مَسْعُودٍ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَالْقَاسِمُ وَعُرْوَةُ وَآلُ أَبِي بَكْرٍ وَآلُ عُمَرَ وَآلُ عَلِيٍّ وَابْنُ سِيرِينَ)[1] ”حضرت ابو جعفرسے مروی ہے کہ مدینہ میں کسی مہاجر کا گھرانہ ایسا نہ تھا جو تہائی یا چوتھائی پیداوار پر بٹائی نہ کرتا ہو، علی سعد بن مالک ، عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہم ، عمر بن عبدالعزیز ، القاسم ، عروۃ رحمۃ اللہ علیہم اور ابو بکر، عمر اور علی رضی اللہ عنہم کے خاندان والے اور ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ(یہ سب اسی طرح)کیا کرتے تھے۔“ اسی طرح امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی فتویٰ ہے چنانچہ فرماتے ہیں: "وَالْقِرَاضُ جَائِزٌ عَلَى مَا تَرَاضَى عَلَيْهِ رَبُّ الْمَالِ ، وَالْعَامِلُ مِنْ نِصْفِ الرِّبْحِ أَوْ ثُلُثِهِ أَوْ رُبُعِهِ أَوْ أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ أَوْ أَكْثَرَ."[2] ”بٹائی کا وہ نفع جائز ہے جس پر (فریقین) ربّ المال اور عامل راضی ہو جائیں(چاہے وہ پیداوارکا)نصف ہو،تہائی ہو،چوتھائی ہو،یا اس سے کم یا زیادہ ہو۔“ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر کے یہودیوں سے مزارعت کا معاملہ طے کیا تو بھی یہی فیصلہ کیا کہ یہود کو محنت کے عوض نصف پیداوار ملے گی۔[3]
Flag Counter