Maktaba Wahhabi

507 - 545
((كُلُّ قَرْضٍ جرَّ منفعةً فَهُوَ رِبا.))[1] ”ہر وہ قرض جس پر نفع حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔“ 2۔بیمہ سے وراثت کا شرعی نظام ختم ہو کر رہ جاتا ہے کیونکہ بیمہ کی رقم بیمہ دار کے مرنے کے بعد اس کے نامزد کردہ شخص کو دی جاتی ہے جب کہ ہر شرعی وراث ترکے کا مستحق ہوتا ہے، جو چیز قرآن و سنت کے نظام کو درہم برہم کرنے والی ہو، وہ کیسے جائز ہو سکتی ہے؟ 3۔عقیدہ تقدیر پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ جائز اور شرعی اسباب بروئے کار لانے کے بعد مستقبل میں پیش آنے والے حوادث اللہ جل جلالہ کے سپرد کر دئیے جائیں، جبکہ بیمہ اس سے فرار ہے، کیونکہ اس میں حوادث کی پیش بندیا ناجائز طریقوں سے پہلے ہی ہو رہی ہوتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم بھی تو دنیا میں رہ چکے ہیں، اُنھوں نے بھی آل اولاد چھوڑی تھی جب اُنھوں نے ایسے ناجائز تحفظات کا انتظام نہیں کیا تو آج کے مسلمان کو کیوں اس کی ضرورت محسوس ہو رہی ہو؟ 4۔اسٹیٹ لائف والوں کا یہ کہنا کہ ہمارا شراکت دار نفع و نقصان میں شریک ہوتا ہے، جھوٹ اور دروغ گوئی ہے اور سادہ لوح انسانوں کو اپنے شکنجے میں پھانسنے کا ایک حیلہ ہے کیونکہ بیمہ کمپنی اگرچہ اس رقم سے تجارت بھی کرتی ہو لیکن اس کے منافع میں ایک معین اور طے شدہ حصہ بیمہ دار کے کھاتے میں جمع کرتی ہے اور بلا شبہ یہ سود ہے کیونکہ اصل رقم کے علاوہ معین اور طے شدہ منافع کے ادا
Flag Counter