Maktaba Wahhabi

508 - 545
کرنے کا نام سود ہے اگر یہ نفع اور نقصان ہی کی بنیاد پر قائم ہو تو پھر بھی بیمہ کرانے والوں کو حسب معاہدہ معینہ رقم نہیں ملنی چاہئے بلکہ کمی بیشی کے ساتھ نفع اور نقصان دونوں میں شریک رہنا چاہئے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے بلکہ بیمہ کمپنیاں عام طور پر اصل رقم سے جو کچھ زائد دیتی ہیں اس کی شرح اور مقدار پہلے ہی سے متعین کر دیتی ہیں۔ در حقیقت یورپ کی ذہنی غلامی نے ہمارے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی ہے کہ سود کے بغیر معاشی نظام چل ہی نہیں سکتا اور اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش بھی کرے تو وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔ جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ[1] ”اپنی زبانوں کے جھوٹ بنا لینے سے یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تاکہ اللہ جل جلالہ پر جھوٹا بہتان باندھو ، یقیناً اللہ جل جلالہ پر جھوٹ باندھنے والے کبھی کامیاب نہیں ہو نگے۔“ 5۔ایسے واقعات بھی سننے میں آتے ہیں کہ نامزد وراث بیمہ دار کو محض حصول زر کی خاطر کسی حیلے بہانے سے موت کے گھاٹ بھی اُتار دیتا ہے، اُسے یہ تو پہلے ہی یقین ہوتا ہے کہ دوسرے وارث اس رقم سے حصہ نہیں بانٹ سکتے۔یہ”یقین
Flag Counter