Maktaba Wahhabi

518 - 545
ایک بوڑھا نابینا بھیک مانگ رہا ہے، دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ یہودی ہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس سے دریافت کیا تجھے کس چیز نے بھیک مانگنے پر مجبور کیا؟ اس نے جواب دیا:جزیہ کی ادائیگی ، معاشی ضروریات اور پیرانہ سالی نے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے مکان پر لے گئے جو موجود تھا وہ دیا اور پھر بیت المال کے خزانچی کے پاس فرمان بھیجا: ((أُنْظُرْ هٰذَا وَضَرَبِائهٖ،فَوَاللّٰهِ مَا أَنْصَفْنَاهُ أَن أكلنَا شيبته ثُمَّ نَخُذُلُهُ عِنْدَ الْهَرَمِ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ اَلْفُقَرَاءُ هُمُ الْمُسْلِمُونَ وَهَذَا مِنَ الْمَسَاكِينِ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، وَوَضَعَ عَنْهُ الْجِزْيَةَ وَعَنْ ضُرَبَائِهِ ))[1] ”یہ اور اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو،اللہ کی قسم!ہم اس کے ساتھ ہرگز انصاف نہیں کر سکتے اگر اس کی جوانی کی محنت(بصورت جزیہ) تو کھائیں مگر اس کی پیرانہ سالی میں اسے بھیک مانگنے کے لیے چھوڑدیں!“ قرآن عزیز میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ[2] ”اور میرے نزدیک یہاں فقراء سے مراد مسلمان مفلس ہیں(اور مساکین سے مراد اہل کتاب کے مساکین و فقراء ہیں) اور یہ سائل مساکین اہل کتاب میں سے ہے،اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جزیہ معاف کردیا اور بیت المال سے اس کا وظیفہ شروع کر دیا۔“ 2۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں ایک بڑھیا رہتی تھی،
Flag Counter