Maktaba Wahhabi

519 - 545
میرے دل میں خیال آیا کہ اس کی خدمت کیا کروں۔مگر میں جب بھی جاتا تو اس کا گھر صاف ستھرا ہوتا اور تمام کام کاج مکمل ہوتے، ایک دن میں نے گھات لگا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں کہ بڑھیا کا پانی وانی بھر کر واپس آرہے ہیں میں نے کہا ”میں قربان جاؤں، میرا خیال بھی یہی تھا کہ ہونہ ہو یہ ابو بکر ہی ہوں گے جو اس لاوارث بیوہ کی خدمت کرتے ہیں۔“[1] 3۔ 8ھ؁کا قحط کا سال جو اپنی شدت اور ہمہ گیری کے اعتبار سے عام الرمادہ (راکھ کا سال) کے نام سے تاریخ اسلامی میں مشہور ہے، آسمان نے بارش برسانا بند کردی اور زمین نے اپنی روئیدگی روک دی تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت سخت ابتلاء سے دوچار تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قحط سالی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایسے تیاریاں کیں جیسے بڑی جنگیں لڑی جاتی ہیں، تمام دیہاتوں سے لوگ مدینہ منورہ اکٹھے ہوگئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھانے تیار کراتے اور لوگوں کو کھلانے کی خود نگرانی کرتے، اس غم اور فکر میں سب کچھ بھول گئے، جسم کی کھال خشک ہوگئی اور رنگ متغیر ہو گیا نہ اپنے کھانے کا فکرنہ لباس کا خیال، صحابہ رضی اللہ عنہم کہا کرتے تھے اگر اللہ اپنے کرم سے عام الرمادہ ختم نہ کرتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس غم میں ہلاک ہو جاتے،ایک دن لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے ایک صاحب کو دیکھا کہ بائیں ہاتھ سے کھا رہے ہیں۔کہا”اللہ کی بندے دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔“اس نے کہا اللہ کے بندے دایاں مشغول ہے، آپ رضی اللہ عنہ آگے گزر گئے، جب لوٹ کر آئے تو پھر دیکھا کہ وہ صاحب بائیں ہاتھ سے کھا رہے ہیں آپ رضی اللہ عنہ نے کہا”اللہ کے بندے دائیں ہاتھ سے کھاؤ“اس نے جواب دیا،”داہنا ہاتھ مشغول ہے“ایسا تین بار ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ خلاف شریعت عمل برداشت نہیں کرتے تھے قدرے غصے سے بولے اللہ
Flag Counter