Maktaba Wahhabi

61 - 545
جانور بھی جسے درندے کھائیں، مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے ذبح کر لو اور وہ جانور بھی جو تھانوں (وہ مقامات جہاں غیر اللہ کے نام پر چڑھاوے چڑھائے جاتے ہوں)پر ذبح کیا گیا ہو، اور یہ بھی (حرام کیا گیا ہے) اگر تم پانسوں (تیروں) کے ساتھ قسمت معلوم کرو، یہ سب گناہ کے کام ہیں۔“ اس آیت کے آخر میں اضطراری حالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ[1] ”کہہ دیجئے !مجھ پر جو وحی نازل کی گئی ہے میں اس میں کھانے والا جو کچھ کھاتا ہے اس پر کسی چیز کو حرام نہیں پاتا ماسوائے اس کے کہ مردار ہو یا (ذبح کے وقت بہتاہوا)خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو،سو یہ ناپاک ہیں،یا کوئی گناہ کی چیز ہو جس پر اللہ کے علاوہ کسی کا نام لیا گیا ہو،پھر جو شخص مجبور ہو جائے، بغاوت کرنے والا حد سے گزرنے والا نہ ہو تو اللہ بخشنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔“ ان آیات مبارکہ میں سب سے بدترین حرام ﴿وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهِ﴾”جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو“کے اضطراری حالت میں حسب ضرورت جواز کا ذکر کردیا گیا ہے،مگر کہیں بھی کتاب و سنت میں سود کو اضطراری حالت میں جائز قرار دینے کا ذكر نہیں ملتا،جس کا واضح مطلب ہے کہ سود انسانیت کی بالخصوص مسلمانوں کی اقتصادی ضرورت کبھی نہیں رہی اور نہ ہی کبھی ہوگی، ورنہ اللہ تعالیٰ اس کا ذکر بھی ان استثنائی صورت حال میں ضرور فرما دیتے۔ جاہلیت کے زمانے میں رائج سودی نظام کا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے سلیقے سے خاتمہ
Flag Counter