Maktaba Wahhabi

185 - 589
مالک ہے اور نہ نفع کی؟] اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا کسی کو نفع بخشی اور ضرر رسانی کا اختیار نہیں ہے۔ پیغمبر ہو یا پیر، امام ہو یا شہید، بھوت ہو یا پری، شیطان ہو یا دیو، کائنات میں سارا تصرف اکیلے اللہ کا ہے، کیونکہ مذکورہ آیت میں استعمال ہونے والا لفظ ﴿ما﴾ علماے اصول کے نزدیک عموم کا صیغہ ہے۔ اللہ کے سوا جو بھی چیز ہے، اس میں شامل ہے۔ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا: ﴿ قَالَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ اِِلٰھَاً غَیْرِی لَاَجْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ﴾ [الشعرآئ: ۲۹] [کہہ یقینا اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تجھے ضرور ہی قید کیے ہوئے لوگوں میں شامل کر دوں گا] اس آیت میں ﴿إلٰھاً﴾ سے مراد معبود ہے جس کی اطاعت پر خوف، امید و رجا اور توکل کیا جائے۔ لفظ ’’الہ‘‘ معبود کا اسم صفت ہے۔ عبادت کی قسموں میں سے سب سے بڑی قسم دعا ہے۔ لہٰذا کسی سے اللہ جیسی محبت کرنا، معصیت میں اس کی اطاعت کرنا اور اس پر اعتکاف کرنا شرک ہے۔ جس نے غیراللہ کا نام الہ رکھا یا اسے ’’ثالث ثلاثۃ‘‘ (تینوں میں سے تیسرا) کہا وہ کافر ہے۔ اسی طرح اگر کسی چیز کانام الہ رکھے بغیر اس کی پوجا و پرستش کی، بلکہ اس معبود کا نام الہ کے بجائے نبی یا فرشتہ یا صالح یا ولی یا امام یا شجر یا حجر یا مدر رکھا تو بھی وہ کافر ہوا، اس لیے کہ اسما معانی کو ان کی حقیقت سے نہیں بدل دیتے ہیں ، جیسے کوئی شخص شراب کا نام دودھ رکھ دے تو وہ شراب اس سے دودھ نہیں بن جاتی ہے اور نہ وہ حلال ٹھہرتی ہے۔ ذاتِ انواط کے قصے میں اس کا پورا بیان آیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس درخت کا نام ذاتِ انواط رکھا تھا۔ انھوں نے صریحاً یہ نہیں کہا تھا کہ ہمارے لیے کوئی معبود مقرر کرو،مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم نے تو یہ ویسی بات کہی جیسی بنو اسرائیل نے کہی تھی۔ انھوں نے کہا تھا: (( اِجْعَلْ لَنَا إِلٰھاً کَمَا لَھُمْ آلِھَۃٌ )) (رواہ الترمذي) [1] [(اے موسیٰ علیہ السلام!) ہمیں بھی ان کے معبودوں کی طرح کا ایک معبود بنا دے]
Flag Counter