Maktaba Wahhabi

188 - 589
﴿ وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ [الأعراف: ۵۶] [اور اسے خوف اور طمع سے پکارو، بے شک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے] ان آیات میں دعاے عبادت اور دعاے مسئلہ دونوں کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ بتا دیا ہے کہ یہ دونوں دعائیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ﴾ [البقرۃ: ۱۸۶] [اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بے شک میں قریب ہوں ، میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں ، جب وہ مجھے پکارتا ہے] اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ لوگوں نے یہ بات کہی تھی کہ کیا ہمارا رب قریب ہے کہ ہم اس سے مناجات کریں یا بعید ہے کہ ہم اس کو پکاریں تو اس پر یہ آیت اتری۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعا ایک ندا اور سوال ہے۔ قرآن مجید میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا: ﴿ قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی﴾ [بني إسرائیل:۱۱۰] [کہہ دے اللہ کو پکارو یا رحمان کو پکارو، تم جس کو بھی پکارو گے سو یہ بہترین نام اسی کے ہیں ] اس آیت کی تفسیر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک رات مکے میں سجدہ کیا اور اس میں ’’یا اللّٰہ‘‘ اور ’’یا رحمٰن‘‘ کہا۔ ابوجہل نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہم کو تو ہمارے معبودوں سے منع کرتے ہیں اور خود دو معبودوں کو پکارتے ہیں ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔[1] سورت نوح میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ قَالَ رَبِّ اِِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّنَھَارًا *فَلَمْ یَزِدْھُمْ دُعَآئِیْٓ اِِلَّا فِرَارًا*وَاِِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُھُمْ لِتَغْفِرَ لَھُمْ جَعَلُوْٓا اَصَابِعَھُمْ فِیْ اٰذَانِھِمْ
Flag Counter