Maktaba Wahhabi

421 - 589
نصیب، خوش قسمت اور طالع مند وہ ہے جو موحد ہے، اس نے نری توحید کو قبول کیا ہے، اس توحید کو تمام تعلقات شرکیہ سے خالص کیا ہے، اکیلے اللہ کی عبادت کی ہے اور جملہ مخالفات کفریہ سے اس کو پاک صاف رکھا ہے۔ ان کے سوا اور جتنی قسم کے لوگ ہیں ، ان کی شفاعت نہ ہو گی، اس لیے کہ ان کے ایمان میں شرک کی آمیزش اور ملاوٹ تھی اور شرک کسی طرح بخشا نہیں جاتا۔ جب شفاعت میں ارتضا اور رضا کی قید آ گئی تو ثابت ہو گیا کہ شرک اللہ کا نا پسندیدہ ہے اور اللہ تعالیٰ مشرک کی بات کو پسند نہیں کرتا ہے، تو پھر اللہ شفاعت کرنے والوں کو ان مشرکوں کی شفاعت کرنے کی اجازت کس طرح دے سکتا ہے؟ کیونکہ شفاعت کو دو امروں کے ساتھ معلق کیا ہے۔ ایک اللہ تعالیٰ کا مشفوع لہ سے راضی ہونا، دوسرا شفاعت کرنے والے کو اجازت دینا۔ تو جب تک یہ دونوں امر اکٹھے موجود نہ ہوں ، تب تک شفاعت کا وجود معدوم ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حقیقت میں شفاعت اللہ کی طرف سے ہے، کیونکہ شفاعت کی اجازت اور اذن دینے والا وہی ہے، کوئی اور نہیں ہے، وہی شفاعت قبول کرنے والا، مشفوع لہ سے راضی ہونے والا، اسے ایسے کام کی توفیق دینے والا ہے جس سے وہ شفاعت کا مستحق ٹھہرے، لہٰذا ثابت ہوا کہ سفارشی بنانے والا مشرک ہے، کوئی اس کی شفاعت کرے گا نہ کوئی شفاعت اس کے لیے کار آمد ہو گی۔ جس شخص نے فقط اپنے رب کو اپنا معبود ٹھہرایا، اسی کے حق میں شفاعت کی اجازت ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مشرکین کے سفارشیوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے: ﴿ اَتُنَبِّؤنَ اللّٰہَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ سُبْحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ [یونس: ۱۸] [کیا تم اللہ کو اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ نہ آسمانوں میں جانتا ہے اور نہ زمین میں ؟ وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں ] اس آیت میں یہ بات بیان کر دی گئی کہ سفارشی بنانے والے مشرک ہیں اور ان کے سفارشی مقرر کرنے سے شفاعت ان کے ہاتھ نہیں آتی ہے، شفاعت تو صرف اللہ کی اجازت سے ہو گی نہ کہ ان کے زعمِ باطل سے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے دلائل اس پر شاہد ہیں کہ جو شخص ملائکہ، انبیا اور اولیا
Flag Counter