Maktaba Wahhabi

422 - 589
کے اللہ سے تقرب کے سبب انھیں اپنے اور اللہ کے درمیان شفاعت کے لیے واسطہ ٹھہراتا ہے، وہ کافر مشرک ہے اور اس کا خون اور مال حلال اور مباح ہیں ، اگرچہ وہ کلمہ پڑھے، روزہ رکھے، نماز ادا کرے اور یہ اعتقاد رکھے کہ وہ مسلمان ہے، بلکہ وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا﴾ [الکھف: ۱۰۴] [وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں ضائع ہوگئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ بے شک وہ ایک اچھا کام کر رہے ہیں ] جس شخص نے قرآن مجید میں غور و فکر کیا، اسے صراحت کے ساتھ یہ بات معلوم ہو گئی کہ جن مشرکوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قتال کیا تھا، ان سب کو اس بات کا اقرار تھا کہ خالق، رازق اور آسمان وزمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، سب اس کے بندے ہیں اور اسی کے زیرِ قہر اور زیرِ تصرف ہیں ، چنانچہ سورت یونس، سورت مومنین اور سورت عنکبوت وغیرہ میں اس کی صراحت موجود ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ مشرکین اللہ کے نیک اور صالح بندوں کو پکارتے تھے، جس طرح سورت سبحان اور سورت مائدہ وغیرہ میں بیان ہوا ہے۔ اسی طرح وہ فرشتوں کی بھی عبادت کرتے تھے جس کا ذکر سورت فرقان، سورت سبا اور سورت نجم میں موجود ہے۔ نیز اس بات کی صراحت ہو چکی ہے کہ مشرکوں کی اس عبادت سے مراد اللہ کا تقرب اور اللہ کے ہاں شفاعت کا حصول تھا، چنانچہ سورت یونس اور سورت زمر وغیرہ میں اس کا تذکرہ ہوا ہے۔ جب یہ بات ظاہر ہو گئی کہ قرآن مجید میں ان تین چیزوں کی صراحت موجود ہے، ایک مشرکین کا رب العالمین کی ربوبیت کا اعتراف کرنا، دوسری ان کا صالح اور نیک بندوں کو پکارنا اور تیسری چیز ان کا ان معبودوں سے تقرب اور شفاعت کا ارادہ رکھنا، تو اب یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ گور پرست اور پیر پرست جو اعمال وافعال کرتے ہیں ، یعنی فوائد حاصل کرنے اور سختیاں دور کرنے کا سوال، تو یہ وہی شرک ہے جس کی بنا پر مشرکوں کو کافر کہا گیا تھا۔ ان مشرکوں نے علم، عبادت اور تصرف میں خالق کو مخلوق کے مشابہ اور مخلوق کو خالق کی مانند ٹھہرا دیا۔ ان کے رد میں قرآن مجید اور اہلِ علم کا کلام اس قدر وسیع ہے کہ اس جگہ اس تمام کے بیان کی گنجایش نہیں ہے۔
Flag Counter