Maktaba Wahhabi

439 - 589
کا اور اس کی مملوکہ چیزوں کا بھی تو ہی مالک ہے] غور کریں تو انھوں نے ’’لا شریک لک‘‘ کہہ کر تنہا اللہ ہی کے لیے عبادت کے ہونے کا اقرار کیا ہے۔ کاش! یہ ’’إلا شریکاً ھو لک‘‘ نہ کہتے۔ ان کے شریک ٹھہرانے ہی میں اللہ تعالیٰ کا اقرار خود بہ خود ثابت ہوتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ اَیْنَ شُرَکَآؤُکُمُ الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ﴾ [الأنعام:۲۲] [کہاں ہیں تمھارے وہ شریک جنھیں تم گمان کرتے تھے؟] ایک جگہ یوں فرمایا: ﴿ قِیْلَ ادْعُوْا شُرَکَآئَ کُمْ فَدَعَوْھُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَھُمْ﴾ [القصص: ۶۴] [اور کہا جائے گا اپنے شریکوں کو پکارو۔ سو وہ انھیں پکاریں گے تو وہ انھیں جواب نہ دیں گے] مزید فرمایا: ﴿ قُلِ ادْعُوْا شُرَکَآئَ کُمْ ثُمَّ کِیْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ﴾ [الأعراف: ۱۹۵] [کہہ دے تم اپنے شریکوں کو بلا لو، پھر میرے خلاف تدبیر کرو، پس مجھے مہلت نہ دو] اس سے معلوم ہوا کہ شریک مقرر کرنے میں اللہ تعالیٰ کا اقرار ہے۔ انھوں نے بتوں کی پوجا اور پرستش کی، ان کے سامنے خشوع و خضوع کیا، نذر و نیاز اور ذبح و نحر کے ذریعے ان کا تقرب چاہا تو اسی اعتقاد کی بنا پر کہ وہ انھیں اللہ کے قریب کر دیں گے اور وہ ان کے سفارشی بن جائیں گے۔ اس پر اللہ نے پیغمبروں کو بھیج کر یہ حکم دیا کہ تم انھیں کہہ دو کہ اللہ کے سوا ہر ایک کی عبادت کرنا چھوڑ دیں ، نیز اس بات کو واضح کیا کہ شریکوں کے حق میں انکا یہ اعتقاد باطل اور غلط ہے۔ یہ عقیدہ تو اللہ کے حق میں رکھنا چاہیے نہ کہ اللہ کے سوا کسی معبود باطل کے حق میں ۔ یہاں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ رسولوں نے اپنی اپنی قوم کو جس چیز کی طرف دعوت دی، وہ یہی توحیدِ عبادت تھی۔ وہ توحیدِ ربوبیت کا اقرار کرتے تھے۔ توحیدِ ربوبیت یہ ہے کہ اللہ اکیلا خالق اور رازق ہے۔ سب سے پہلے پیغمبر نوح علیہ السلام ہیں اور سب سے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں ۔ ہر پیغمبر نے اپنی امت کو جس چیز کی طرف دعوت دی، وہ یہی توحیدِ عبادت ہے، اسی لیے رسولوں نے ان سے یہ بات کہی:
Flag Counter