Maktaba Wahhabi

500 - 589
﴿ وَاِِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ﴾ [الشعرائ:۸۰] [ جب میں بیمار ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے] ﴿ اِِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ﴾ [الذاریات: ۵۸] [یقینا اللہ ہی وہ ذات ہے جو رزق رساں ہے، زبردست قوت کا مالک ہے] ﴿ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّاھُم﴾ [الأنعام: ۱۵۲] [ہم ہی تمھیں اور انھیں روزی دیتے ہیں ] ﴿ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْٓئَ﴾ [النمل: ۶۲] [ کو ن ہے جو پریشان حال کی دعائیں سنتا اور پریشانی دور کرتا ہے] دوسری آیت میں لفظ ’’رزاق‘‘ کے بعد جو یہ فرمایا کہ وہ قوت والا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی کسی مخلوق کی پرورش اس کے دشمن سے کرا دیتا ہے۔ اس کی نمایاں مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہے۔ فرعون دشمنِ رسول نے ان کی پرورش کی۔ رب پاک یہ چاروں کام: شفا دینا، روزی دینا، مراد پوری کرنا اور بلا ٹالنا، صرف لفظ ’’کُنْ‘‘ (ہو جا) سے کرتا ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَ اِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ﴾ [البقرۃ: ۱۱۷] [ جب وہ کسی چیز کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس کے لیے صرف ’’کُنْ‘‘ (ہو جا) فرماتا ہے اور وہ چیز ہو جاتی ہے] یہاں لفظ ’’کُنْ‘‘ سے مطلب یہی ہے کہ صرف فرمایا جاتا ہے۔ خلق و ایجاد کے لیے یہ لفظ مجازاً نہیں استعمال فرمایا ہے کہ سارے کام انجام دینے کو اسی لفظ سے تعبیر فرمایا، بلکہ صرف یہ لفظ رب پاک فرماتا ہے اور سب کچھ ہو جاتا ہے۔ فخر الاسلام بزدوی بھی اسی کے قائل ہیں ۔ نیز مذکورہ چاروں کام عام معروف اسباب کے تحت بھی انجام نہیں پاتے، یعنی جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ طبیب نے بیمار کو شفا دی، امیر نے لشکر کو رسد بانٹا، ایسا بھی نہیں بلکہ چاروں کام محض لفظ ’’کُنْ‘‘ سے انجام پا جاتے ہیں ۔ اللہ کا کوئی وزیر ہے نہ پشت پناہ، وہ اپنے غیر میں داخل ہے نہ وہ غیر سے مل کر مرکب ہے، وہ ذات و صفت دونوں میں اکیلا و نرالا ہے۔ کوئی حادث اس کی ذات سے وابستہ ہے نہ اس کی ذات
Flag Counter