Maktaba Wahhabi

501 - 589
میں کسی طرح کا حدوث ہے۔ جو حدوث نظر آتا ہے تو دراصل وہ صفاتِ باری تعالیٰ کا وہ اثر و تعلق ہے جو متعلق ومتاثر میں ہوتا ہے۔ جب رب پاک کا ارادہ ہوتا ہے کہ اس کی صفات کا اثر ظاہر ہو تو قضاو قدر کے مطابق موثر و متعلق ظاہر ہو جاتا ہے، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ اثر و تعلق بھی حادث نہیں ہے، حادث صرف متاثر و متعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اثر و تعلق کے احکام موثرات و متعلقات کے تفاوت کی بنا پر مختلف ہوتے ہیں ۔ اس کی ذات پاک اور صفات علیا ہر طرح کے حدوث و تجدد اور تغیر و تبدل سے پاک ہیں ۔ اس کی صفات جہل و کذب سے منزہ ہیں ۔ اس کے وعدہ و و عید کبھی مختلف نہیں ہوتے۔ ﴿ مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ﴾ [قٓ: ۲۹] [میرے یہاں بات نہیں بدلی جاتی] محققین یہی کہتے ہیں ، مگر بعض لوگ کہتے ہیں کہ وعید کی عدم تکمیل جائز ہے، اس لیے کہ یہ فضل الٰہی ہے۔ ﴿ اِسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾ [السجدۃ: ۴] [ اللہ عرش کے اوپر ہے] ﴿ اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ [طٰہٰ: ۵] [وہ بے حد رحم والا عرش پر بلند ہوا] یہ آیت قرآن کریم میں سات جگہ آئی ہے۔ سلف نے اس کو محکم ٹھہرایا ہے۔ تمام محدثین، ائمہ مجتہدین، علما، محققین اور راسخین فی العلم کا یہی عقیدہ ہے۔ قدریہ، معتزلہ اور جہمیہ استوا کا انکار کرتے ہیں ۔ یہ لوگ قرآن میں تحریف کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ قرآن میں ’’علی العرش‘‘ اور ’’فوق العرش‘‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ عرش ساتویں آسمان کے اوپر ہے، اس کے باوجود رب پاک کے علم، سمع اور بصر سے کوئی چیز مخفی نہیں رہتی ہے۔ حجۃ الوداع میں ایک لاکھ چوبیس ہزار یا اس سے زیادہ مرد و زن اور شہری و دیہاتی اطفال موجود تھے۔ سب کے سامنے رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر اشارہ کیا تھا اور اللہ کو سب کے اوپر بتایا تھا۔[1] اثباتِ علو پر ’’اعلام الموقعین‘‘ میں قرآن کی اٹھارہ دلیلیں مذکور ہیں ۔[2] کتاب ’’الکافیۃ الشافیۃ‘‘ میں ہے کہ اس کے مصنف نے اس عقیدے کے مخالفین سے مناظرہ و مباہلہ کرنا چاہا تھا، مگر مخالف بھاگ گئے اور اہلِ حق کے مقابلے میں ہار گئے۔ ’’الانتقاد الرجیح‘‘[3] میں اس پاکیزہ عقیدے ’’اللہ عرش کے اوپر ہے‘‘ پر تفصیل سے دلیلیں مذکور
Flag Counter