Maktaba Wahhabi

502 - 589
ہیں ۔ اس معاملے میں سب سے عمدہ فیصلہ امام دار الہجرہ مالک بن انس رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔ کسی نے ان سے سوال کیا تھا: استوا کیا ہے؟ انھوں نے اس کو جواب دیا: ’’الکیف غیر معلوم، والاستواء غیر مجھول، والإیمان بہ واجب، والسؤال عنہ بدعۃ‘‘ [کیفیت معلوم نہیں ، استوا مجہول نہیں ، استوا پر ایمان لانا واجب ہے اور اس سے متعلق سوال کرنا بدعت ہے] پھر سائل سے کہا: مجھ کو ڈر لگتا ہے کہ کہیں توگمراہ نہ ہو۔ پھر اس کو اپنے پاس سے نکلوا دیا۔[1] سیدہ ام سلمہr نے فرمایا: استوا مجہول نہیں ، کیف قابل فہم نہیں ، استوا کا اقرار ایمان ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔[2] امام ابن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’نعرف ربنا فوق سبع سمٰوات علی العرش استویٰ، بائنا من خلقہ، ولا نقول کما قالت الجھمیۃ: إنہ ہا ہنا‘‘[3] [سات آسمانوں کے اوپر اپنے رب کو ہم پہچانتے ہیں ۔ وہ اپنی مخلوق سے جدا عرش پر مستوی ہے۔ ہم ویسا نہیں کہیں گے، جیسا کہ جہمیہ نے کہا ہے کہ اللہ یہاں (زمین) پر ہے] امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’جو شخص عرش پر اللہ کے استوا کا انکار کرے، وہ کافر ہے۔ اس کا خون مباح ہے۔ اس سے توبہ کرائیں گے، اگر توبہ نہ کرے تو فی الفور اس کی گردن مار دی جائے گی اور اس کی لاش گندگی میں ڈال دیں گے، تا کہ اس کی بدبو سے اہلِ اسلام اور معاندین کو ایذا نہ پہنچے۔ اس کا مال فے ہے۔ کوئی مسلمان اس کا وارث نہیں ہو سکتا۔ حدیث میں ہے: (( لا یرث المسلم الکافر )) [مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا ہے] [4]
Flag Counter