Maktaba Wahhabi

503 - 589
یہی قول ائمہ سلف و محدثین کا ہے۔ رہ گئیں وہ آیتیں جو قرب و معیت پر دال ہیں تو ان پر بھی ظواہر الفاظ کے مطابق ایمان لانا واجب ہے اور ان کی کیفیت کاعلم اللہ کے حوالے کرنا چاہیے۔ اکثر مفسرین نے ان کو علم، مدد اور نصرت پر محمول کیا ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ہمیں ان کی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں فقط ان کی تصدیق کرنی چاہیے اور ان کی کیفیت خدا کو سونپنا چاہیے، یہی بہتر ہے۔ بعض علما کا یہ کہنا کہ جن راسخین فی العلم کو اللہ نے علم لدنی دیا ہے، وہ استوا و تفوق کی حقیقت کو جانتے ہیں ، ایک غیر قانونی آہنگ ہے، کیونکہ اکثر علما کے نزدیک آیت کریمہ ﴿الرَّاسِخُوْنَ فِیْ الْعِلْمِ﴾ [علم میں ادراک تام رکھنے والے] کلامِ مقطوع ہے، اپنے ماقبل پر معطوف نہیں ہے۔ صحابہ و تا بعین کی جماعت کا یہی قول ہے۔ اکثر نحویوں کا بھی یہی خیال ہے۔ اخفش، کسائی اور فرا اسی کے قائل ہیں ۔ اکثر مفسرین و محدثین بھی یہی کہتے ہیں ۔ سمعانی نے کہا ہے کہ علمِ راسخین کے قائل بہت تھوڑے ہیں ۔ ترجمانِ قرآن حبرِامت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہی سمجھا ہے کہ ’’واو‘‘ استئناف کے لیے ہے۔ اس کے سوا آیت مذکورہ اہلِ زیغ و فتنہ کی مذمت اور مفوضینِ علم الی اللہ کی مدح میں اتری ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا متشابہ کا معنی کسی کو معلوم نہیں اور جو معنی شناسی کا دعویٰ کرتاہے، وہ صاحبِ زیغ و فتنہ ہے، لیکن جو ٹھوس علم رکھتے ہیں اور راہِ حق پر گامزن ہیں ، ان کا یہ مقولہ ہے: ﴿اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا﴾ [آل عمران: ۷] [ متشابہ پر ہمارا ایمان ہے، وہ سارا اللہ کی طرف سے ہے] حضرت انس، ابو امامہ، واثلہ اور ابو الدردائ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ انھوں نے رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا تھا: راسخین فی العلم کون لوگ ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (( من برت یمینہ، وصدق لسانہ، واستقام قلبہ، وعف بطنہ و فرجہ، فذلک من الراسخین في العلم )) [1] ’’ جن کی قسم سچی ہو، زبان راست باز ہو، دل سلامت ہو، پیٹ پارسا اور شرم گاہ عفیف ہو تو اسی کا شمار راسخین فی العلم میں ہو گا۔‘‘ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو عالم ہو کر جھوٹی قسم کھاتا ہے یا دروغ گوئی کرتا ہے یا
Flag Counter