Maktaba Wahhabi

508 - 589
’’حتی أنظر في کلام اللّٰه‘‘[1] [یہاں تک کہ میں کلام اللہ میں دیکھ لوں ] عکرمہ رضی اللہ عنہ مصحف کو ہاتھ میں لے کر کہتے تھے: ’’ھٰذا کلام ربي‘‘ [2] [یہ میرے رب کا کلام ہے] یہ قرآن کانوں سے سنا گیا ہے، یعنی انھیں الفاظ، حروف اور اصوات کے ساتھ، فرمایا: ﴿حَتّٰی یَسْمَعَ کَلَامَ اللّٰہ﴾ ’’یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔‘‘ اشعریہ اسی کے قائل ہیں ۔ ما تریدی کا یہ قول کہ اس آیت کے معنی ہیں : ’’یہاں تک کہ وہ ایسی بات سن لیں جو رب پاک کو بتلائے۔‘‘ ظاہرِ قرآن کے خلاف ہے۔ ان کے نزدیک موسیٰ علیہ السلام نے نفسِ کلام نہیں سنا بلکہ ایک آواز سنی جو کلام پر دلالت کرتی تھی۔ بہر حال قاری یا تلاوت کرنے والا قرآن کسی بھی طرح پڑھے، تلاوت کرنے والا خواہ زبانی پڑھے یا لکھا ہوا پڑھے، وہ کلام اللہ ہے، ہر گز مخلوق نہیں ہے۔ خلقِ قرآن کا اعتقاد رکھنا صریح کفر ہے۔ اکابر اہلِ حدیث جیسے ابن خزیمہ، ابوبکر اسماعیلی، ابن مہدی اور طبری وغیرہ کا یہی عقیدہ ہے۔ امام احمد بن حنبل امام اہل حدیث کی اسی مسئلے پر پکڑ دھکڑ ہوئی تھی۔ اگر امام احمد ثابت قدم نہ رہتے تو اہل حدیث کا مذہب دنیا سے جا چکا تھا، مگر اللہ نے یہ مرتبہ گویا انھیں کے لیے رکھ چھوڑا تھا۔ اسی مقبولیت کا اثر تھا کہ ان کے جنازہ مبارک میں آٹھ لاکھ آدمی شریک ہوئے۔ یہ عزت دنیا میں کسی بادشاہِ وقت کو بھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ بغداد میں ایک شخص بھی نہ بچا جس نے یہ سعادت حاصل نہ کی ہو۔ ان کے بعد یہ ہجوم شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے جنازے میں ہوا، ایسا ہجوم پھر کسی دوسرے کے جنازے میں نہ ہوا۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’جو شخص یہ کہتا ہے: ’’لفظي بالقرآن مخلوق‘‘ [قرآن کو میرا پڑھنا مخلوق ہے] وہ جہمی ہے اور جو غیر مخلوق کہتا ہے وہ بدعتی ہے۔‘‘ امام طبری رحمہ اللہ نے فرمایا: یہی بات حق ہے اور اسی میں کفایت وقناعت ہے۔[3] یعنی قرآن کے یہ الفاظ جو ہماری زبان سے ادا ہوتے ہیں ، مخلوق نہیں ہیں ، بلکہ بعینہٖ وہی کلمات و عبارات ہیں جو اللہ نے نازل کیے ہیں ۔ اب اس سلسلے میں یہ بحث کرنا کہ قرآن مخلوق ہے یا نہیں ؟ طریقۂ سنت
Flag Counter