Maktaba Wahhabi

380 - 589
ہی ہے، تو اس کا اور اس کی ہر مملوکہ چیز کا مالک ہے] غرض کہ انھوں نے اپنے بتوں کو رب الانام کا شریک بنا دیا تھا، اگرچہ ان کی مذکورہ گمراہ کن عبارت اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اس شریک اور اس کی مِلک کا مالک ٹھہرا، تو حقیقت میں وہ اللہ کا شریک نہ ہوا، بلکہ اس کا مملوک ہوا۔ بہر حال بت پرست وہ لوگ تھے جو اللہ کے ہمسر ٹھہراتے تھے اور انھوں نے اللہ کے سوا اور شریک مقرر کر لیے تھے، وہ ان شرکا کو اپنا سفارشی اور اللہ کے قریب کرنے والا جانتے تھے، جب کہ دور حاضر کے یہ جاہل مسلمان، جو اپنے اولیا کے حق میں نفع و ضرر کا اعتقاد رکھتے ہیں ، ان کو اللہ کی وحدانیت کا اقرار ہے، یہ تنہا اسی کو اللہ جانتے ہیں اور اس کے رسولوں کی تصدیق کرتے ہیں ، رہی اولیا کی وہ تعظیم جو ان سے سر زد ہوتی ہے تو یہ عملی کفر ہے، کفر جحودی نہیں ہے۔ لہٰذا ان کو وعظ کرنا، انھیں ان کا جہل بتلا دینا، زجر و توبیخ کرنا، خواہ تعزیراً ہی ہو، واجب ہے۔ جس طرح ہمیں اس بات کا حکم ہے کہ زانی، شرابی اور چور پر، جو عملی کفر کے مرتکب ہیں ، حد نافذ کریں ، یہ سب حرام برے کام اور اعمالِ جاہلیت ہیں اور من جملہ کفر عملی سے ہیں ۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ امت جاہلیت کے کچھ کام کرے گی جو عملی کفر میں شامل ہیں ، جیسا کہ یہ حدیث ہے: (( أَرْبَعٌ فِيْ أُمَّتِيْ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ لَا یَتْرُکُوْنَہُنَّ: اَلْفَخْرُ فِيْ الْأَحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِيْ الْأَنْسَابِ، وَالِاسْتِسْقَائُ بِالنُّجُومِ، وَالنِّیَاحَۃُ )) (أخرجہ مسلم من حدیث أبي مالک الأشعري) [1] [چار باتیں میری امت میں زمانہ جاہلیت کی ایسی ہیں کہ وہ ان کو نہ چھوڑیں گے۔ اپنے حسب پر فخر اور نسب پر طعن کرنا، ستاروں سے پانی (بارش) طلب کرنا اور نوحہ کر نا] چنانچہ اس حدیث میں مذکورہ اعمال عملی کفر سے تعلق رکھتے ہیں ، ان اعمال کے ارتکاب سے کوئی ملتِ اسلامیہ سے خارج نہیں ہوتا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہلِ جاہلیت کے ان خصائل کو اختیار کرنے کے باوجود انھیں اپنی طرف منسوب کیا اور فرمایا: (( مِنْ أُمَّتِيْ )) [میری امت سے]۔ اگر کوئی کہے کہ اہلِ جاہلیت اپنے بتوں کے حق میں یہ کہتے تھے کہ وہ اللہ کی طرف ہمارے مقرب ہیں ، جس طرح گور پرست کہتے ہیں اور وہ یہ کہتے تھے کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ،
Flag Counter