Maktaba Wahhabi

265 - 452
جواب: قرآن کریم میں ہے :’’جو کام نیکی اور تقویٰ پر مبنی ہیں، ان میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور جو کام گناہ اور زیادتی پر مشتمل ہیں، ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ ‘‘[1] یہ آیت کریمہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کہ ہمیں ایسے کاروبار نہیں کر نے چاہئیں جو گناہ اور اللہ کی نا فرمانی پر مبنی ہیں۔ صورت مسؤلہ میں سپیکر وغیرہ تیار کرنا ذاتی طور پر کوئی برا کام نہیں لیکن اگر کوئی دیدہ دانستہ طور پر کہتا ہے کہ مجھے موسیقی اور گانے بجانے میں سپیکر وغیرہ کو استعمال کرنا ہے تو ایسے شخص سے تعاون نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اسے اس کے آرڈر کے مطابق سامان تیار کر کے دینا چاہیے۔ شراب عموماًانگور، گنا ، کھجور وغیرہ سے تیار کی جا تی ہے حالانکہ یہ سب چیزیں بذات خود حلال ہیں، اگر یہ حلال چیزیں شراب کشید کرنے کے لیے استعمال کی جائیں گی تو اس حرام مقصد کے لیے ان کی خرید و فروخت بھی حرام ہو گی۔ اسی طرح اگر کوئی شراب نوشی یا کسی بھی دوسرے حرام کام کے لیے اپنی دکان کرایہ پر دیتا ہے یا انہیں جگہ مہیا کر تا ہے یا سودی کاروبار کے لیے مکان فراہم کرتا ہے تو وہ بھی برابر کا مجرم ہے اور تعاونو علی الاثم و العدوان کے ضمن میں آتا ہے ۔ اس اصل کے مطابق ہر وہ بیع ناجائز اور حرام ہے جو کسی حرام یا غلط مقصد کے لیے کی جائے ۔ چنانچہ ایک جگہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ و قتال کے ایام میں اسلحہ کی خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے۔[2] بہر حال ایسے غلط مقاصد کے لیے اشیا فراہم کرنا ، گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون کرنا ہے، اس لیے ایسے کاروبار سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ اگر کوئی بتائے بغیر سودا لے جاتا ہے پھر اسے غلط استعمال کرتا ہے تو اس میں فروخت کنندہ کا کوئی گناہ نہیں۔ البتہ اسے علم ہے کہ میری فروخت کر دہ چیز کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے تو اسے اس کے متعلق غور و فکر کرنا چاہیے اور ایسے شخص کو اپنا تعاون پیش نہ کرے جو غلط کار اور دھوکے باز ہو۔ (واللہ اعلم)
Flag Counter