Maktaba Wahhabi

279 - 452
ہو تی ہے ۔ اب کیا باقی اولاد کی ضروریات واخراجات منہا کر کے اس کی جائیداد تقسیم کی جائے ؟ قرآن و حدیث کے مطابق اس مسئلہ کا کیا حل ہے ، آخر باقی اولاد کی شادی وغیرہ کرنا پڑتی ہے ، وہ اخراجات کہاں سے پورے کیے جائیں۔ جواب: اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر احسان ہے کہ وہ اسے صاحب اولاد کر دے ، صاحب اولاد ہو نے کے بعد انسان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی ضروریات کا خیال رکھے اور انہیں کسی صورت میں ضائع نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’انسان کو یہی گناہ کافی ہے کہ وہ جس کی کفالت کر تا ہے اسے ضائع کر دے۔‘‘[1] اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے پاس ایک دینار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے اپنے آپ پر خرچ کر ، پھر عرض کیا، میرے پاس ایک دوسرا دینار بھی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اسے اپنے بچے پر خرچ کر۔ [2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کوخصوصی نصیحت کر تے ہوئے فرمایا تھا :’’اپنے اہل و عیال پر اپنی آمدنی کے مطابق خرچ کر تے رہو، ان کی تر بیت کیلئے چھڑی تیار رکھو اور انہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتے رہو۔ ‘‘[3] ان احادیث سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان کو اپنی اولاد کی ضروریات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے، اس کے علاوہ ان میں عدل و انصاف کر نے کا بھی حکم ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’اللہ سے ڈرو اور اپنے بچوں میں عدل کرو۔‘‘[4] جس بچے کو جتنی ضرورت ہے اسے پورا کرنا باپ کا اولین فرض ہے۔ ضروریات کو پورا کر نے میں مسا وات کو بر قرار رکھنا انتہائی مشکل ہے۔ کیونکہ ایک بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر تاہے تو اس کی ضروریات اور شیرخوار بچے کی ضروریات ایک جیسی نہیں ہیں، البتہ ضروریات کے علاوہ تحفے تحائف اور محبت و پیار میں عدل و انصاف اور مسا وات رکھنا ضروری ہے۔ ہر باپ اپنی زندگی میں اولاد کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے، ان کے کھانے پینے، لباس اور رہنے سہنے کا بند و بست کر تا ہے، اسی طرح ان کی شادی پر اٹھنے والے اخراجات بھی بر داشت کر تا ہے، اولاد بھی جو کچھ کماتی ہے وہ باپ کے حوالے کر دیتی ہے۔ اسی طرح مل جل کر زندگی کی گاڑی چلتی رہتی ہے لیکن جب والد فوت ہو جا تا ہے تو اس پر اولاد کی ضروریات کو پورا کر نے کی ذمہ داری بھی ختم ہو جا تی ہے اور اس کا ترکہ تمام اولاد اور شرعی ورثا کا مال بن جا تاہے۔ اس کے ترکہ سے انسان کی ذاتی ضروریات مثلاًکفن و دفن، قرض کی ادائیگی وغیرہ تو منہا کی جاسکتی ہے لیکن دوسری ضروریات کیلئے کچھ رقم الگ رکھ لینا شرعاًجائزنہیں ہے ۔ حتیٰ کہ اس کے مرنے کے بعد بچوں پر اٹھنے والے اخراجات بھی منہا کرنا جائز نہیں۔ ویسے تو ہمارے ہاں ایسا ہو تاہے کہ سر براہ خانہ کے فوت ہو نے کے بعد اسکا ترکہ اس کی بیوہ اور بال بچوں کا ہو تا ہے۔ اس لیے تقسیم کر نے کی نوبت نہیں آ تی بلکہ مشترکہ طور پر تمام ضروریات پوری کی جا تی ہیں لیکن اگر کوئی وارث (بیٹا یا بیٹی ) اپنا حصہ لینے کا تقاضا کر تا ہے تو اسے اس کا حصہ ضرور دینا چاہیے۔ صورت مسؤلہ میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد جو بچے غیر شادی شدہ ہیں، ان کے اخراجات ترکہ سے
Flag Counter